تازہ ترینافسر اور دفترریاست اور سیاست

عمران خان کا ایک اور یو ٹرن، امریکا اور فوج دونوں اچھے ہیں

(سفیان سعید خان)چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے قوم کامفاد عزیز ہے ‘ رجیم چینج سازش کے باعث امریکا سے تعلقات نہیں توڑسکتا‘دو، تین کالی بھیڑوں کے ساتھ ہمیں مسئلہ تھا، اگر ہم دو، تین لوگوں کے خلاف ہیں تو مطلب پورے ادارے کے خلاف نہیں‘اچھے اور برے لوگ ہرجگہ موجود ہوتے ہیں‘.

 اداروں کی عزت ان کے اعمال سے بنتی ہے‘نیاآغازہواہے ‘خداکا واسطہ ہے آئین کے ساتھ چلو‘کچھ لوگ چاہتے ہیں میری اورفوج کی لڑائی ہوجائے‘سپہ سالار جو بھی ہو گا وہ فوج اور ملک کے خلاف نہیں جاسکتا‘حقیقی طور پر آزاد ہونے تک خاموش نہیں بیٹھیں گے‘اگریہ الیکشن نہیں کروانا چاہتے تو ہم نے ان سے کیا بات کرنی ہے ‘ میں ان لوگوں سے کیا بات کروں جنھوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا‘یہ جو مرضی کرلیں الیکشن تواب ہونے ہی ہیں ‘الیکشن زیادہ سے زیادہ اگلے اکتوبر تک ہی جاسکتے ہیں لیکن ہم پورا دباؤ بنائیں گے ‘نوازشریف کے الیکشن لڑنے سے مجھے کوئی مسئلہ نہیںمگر ہم قوم کو کیاپیغام دے رہے ہیں ‘اس کو پہلی بار پتہ چلے گا قوم بدل چکی ہے ۔

امریکی نشریاتی ادارے اور ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہم چاہتے ہیں پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہو، ہم نہیں چاہتے کوئی ہمیں ڈکٹیشن دے کہ فلاں سے تیل لینا ہے یا نہیں۔

بار بار کہتا ہوں ملک بھی میراہے اور فوج بھی میری ہے‘اگر میں اپنی پارٹی سے کسی برے شخص کو نکالوں گا تو پارٹی میں بہتری ہو گی‘دو پارٹیوں نے جرائم پیشہ لوگوں کواداروں میں لگا کر انہیںتباہ کیا۔

ایک ادارہ فوج ہے جو ان سے ابھی بچا ہوا ہے‘اب ان کی پوری کوشش ہے کہ اس کو کنٹرول کریں ‘اداروں کی عزت ان کے اعمال کی وجہ سے بنتی ہے،خدا کا واسطہ ہے آئین کے ساتھ چلو ۔ آئین و قانون کے بیچ میں رہ کر جو بھی کرنا ہے کرو‘یہ جو ماورائے عدالت چیزیں ہیں لوگوں کو اٹھا کر مارنا، ننگا کرنا ، ویڈیوز بنانا ۔

اب نئی شروعات ہوئی ہے ‘ اس میں کم از کم ان لوگوں کو تو فارغ کریں جنہوںنے ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے ۔ سب جانتے ہیں کون ہے وہ؟۔

دوسری جانب جنرل قمر جاوید باجوہ کے بدھ کے خطاب کو کئی لوگوں نے تاریخی قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ 70 برس میں فوج کے سیاسی کردار کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ 

پاکستان کو سیاست اور ملک کے دیگر معاملات میں مسلسل بالواسطہ مداخلت کے ساتھ متواتر وقفوں سے تین براہ راست فوجی مداخلتوں کا سامنا رہا ہے اور یہ اقدام فوج کے آئین میں وضع کردہ دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ 

جنرل باجوہ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی مداخلتیں فوج کی ذمہ داریوں کے دائرے سے باہر ہیں، اور انہوں نے اسے [مداخلتوں کو] نہ صرف فوج کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا بلکہ غیر آئینی بھی کہا۔ تاہم، انہوں نے اپنے ادارے کی اس بات کی توثیق کی کہ فوج اب مزید ایسے اقدامات نہیں کرے گی اور سیاست سے دور رہے گی۔ 

بعض نے اسے گورباچوف کا لمحہ بھی قرار دیا کہ دیکھیں کیسے ایک آرمی چیف گزشتہ کئی دہائیوں میں پیدا ہونے والے گند کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ ادارہ مستقبل میں ایسا نہیں کرے گا۔ 

جنرل باجوہ نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فوج کیخلاف ’’جعلی‘‘ بیانیہ تیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حالیہ ’’بہتان تراشی‘‘ پر تنقید کی۔ 

کوئی شک نہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا ذمہ دار خالصتاً فوج کو قرار نہیں دیا جاسکتا، سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس غلطی میں اپنے حصے کا بھی اعتراف کریں۔ لیکن چونکہ فوج نے ماضی میں زیادہ عرصہ تک ملک پر حکمرانی کی ہے اسلئے غلطیوں کی ذمہ داریوں میں اسے زیادہ حصہ ڈالنے کا اعتراف کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے قوم کا سماجی، سیاسی اور معاشی تانا بانا لیروں لیر ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button