ڈینگی کا لاہور میں قتل عام جاری،الیکٹرانک میڈیا پریاسمین راشد کا دباو اصل صورتحال نہیں بتائی جا رہی

( رضا ہاشمی) پنجاب حکومت اور ڈینگی کی ملی بھگت سے لاہوریوں کا قتل عام جاری ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی گرفت میں ہے ۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈینگی وائرس سے ایک شخص ہلاک ہوا اور صوبے میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 459 مریضوں میں ڈینگی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ جبکہ صورتحال اس سے بہت زیادہ خراب ہے خاص طور پر لاہور کےمختلف علاقوں میں گزشتہ روز بھی ڈینگی کی وجہ سے شہریوں کی متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن کوئی میڈیا چینل یا اخبار اصل صورتحال کو سامنے نہیں لا رہا ۔
ڈینگی پلیٹ لیٹس ٹیسٹ کی بات کی جائے تو لاہور کی پرائیویٹ لیبارٹریوں کو پنجاب حکومت نے لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ڈینگی ٹیسٹ جسکا سرکاری ریٹ 90 روپے ہے 2900 روپے میں کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی اردو جو شائد طاقتور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے دباو سے آزاد ہے نے آج کور سٹوری میں لاہور میں ڈینگی کے پھیلاو کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس میں مریضوں کی جانب سے پنجاب حکومت کی کارکردگی اور ڈینگی ٹیسٹ کے حوالے سے لیبارٹریوں کی لوٹ مار کو بھی حصہ بنایا گیا ہے ۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لاہور کے رہائشی علی حمزہ کے تاثرات چھاپے ہیں جو ڈینگی کے مرض کا شکار ہیں اور رپورٹ میں لاہور کے مریضوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


"علی حمزہ کے مطابق ’پچھلے دور حکومت نے ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 90 روپے مقرر کی تھی۔ اب جب میں ٹیسٹ کروانے گیا تو لیب والے نے کہا کہ 750 روپے دینے ہوں گے۔ اگر 90 روپے میں ٹیسٹ کروانا ہے تو ڈاکٹر سے لکھوا کر لاؤ کہ تمھیں ڈینگی ٹیسٹ کی ضرورت ہے۔‘
’اگر آپ اپنے ٹیسٹ میں زیادہ تفصیل چاہتے ہیں تو وہ ٹیسٹ 2900 روپے کا ہے۔ اگر پلیٹلیٹس لگوانے ہیں تو کراس میچ سمیت دیگر ٹیسٹوں پر اٹھنے والا خرچہ لگ بھگ 31 ہزار کا ہے۔ یہی نہیں اس کے لیے بھی تقریباً سو افراد ہم سے پہلے لائن میں کھڑے ہیں۔ ایسے حالات میں عام شہری حکومت وقت سے شکوہ نہ کرے تو کیا کرے۔”
شمالی لاہور بھٹہ چوک ، بیدیاں ، آر اے بازار کے ساتھ ساتھ گارڈن ٹاون ، گلبرگ ، اچھرہ، مزنگ اور چنگی امرسدھو کے علاقوں میں سیکڑوں شہری ڈینگی کی علامات کے ساتھ ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر اور لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن پنجاب کی وزیر صحت نے ہسپتالوں میں مریضوں اور انکے لواحقین کے ہر قسم کے احتجاج پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ اگر کوئی شہری تصویر یا ویڈیو بنانے کی کوشش بھی کر تا ہے تو ہسپتال کی سیکیورٹی اس سے موبائل فون چھین کر تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور مریضوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔
اسکے علاوہ لاہور کے ہسپتالوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی ڈینگی کا شکار ہے اور بچوں میں ہلاکتوں کی تعداد خطرناک حد تک ہے تاہم ہلاکتوں کو میڈیا پر رپورٹ نہیں کیا جا رہا ۔ سروسز ہسپتال لاہور میں متعدد ڈیوٹی ڈاکٹر ہسپتالوں میں ڈینگی کا سپرے نہ ہونے کی وجہ سے اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پر لاہور کے ہسپتالوں کی اپ ڈیٹس چلائی جا رہی ہیں جن میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں مین ڈینگی کے مریضوں کے لئے تاحال خاطر خواہ گنجائش موجود ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ ایکسپو سینٹر لاہور میں موجود پنجاب حکومت کے عارضی ہسپتال میں بھی سہولیات کا فقدان ہے اور مریضوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مریضوں کی شکایات ہیں کہ ڈاکٹرز اور عملہ انکے ساتھ بہت ناروا سلوک کر رہے ہیں ۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا دعوی تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد چونکہ خود پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اس لئے وہ پنجاب میں محکمہ صحت کا نظم و نسق بہتر طور پر چلائیں گی لیکن انکی تین سالہ کارکردگی نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ انہوں نے میڈیکل سیکٹرز کے ان تمام مافیاز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جو بیماری اور تکلیف کی حالت میں عوام کا خون نچوڑتے ہیں ۔