لاہور میں 10 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا

( جہانزیب احمد خان ) لاہور میں 10 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
لاہور کے علاقے مناواں میں سوئمنگ پول سے مردہ حالت میں ملنے والی باجوڑ ایجنسی کی بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے تفتیش کو نیا رخ دے دیا۔
مناواں پولیس نے سوئمنگ پول کے مالک کو گرفتارکررکھا ہے لیکن شریک ملزم اسلم تاحال مفرور ہے جس کی عدم گرفتاری پر متاثرہ فیملی سراپا احتجاج ہے۔
بچی کی لاش چند روز قبل سوئمنگ پول سے ملی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بچی سے دو بار زیادتی کی گئی جس کے بعد اسے قتل کیا گیا۔
مقتول بچی کے ورثاء نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان بااثر ہیں جن کے ساتھ پولیس ملی ہوئی ہے۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 9 سے زیادہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کیسز میں بچے کو ہراساں کرنے والے قریبی لوگ یا خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ کو 91 اخبارات کی رپورٹس کو مانیٹر کرنے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں ابتک بچوں کے اغوا کے 1039 واقعات سامنے آئے جبکہ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 467، لڑکوں کے ساتھ ریپ کے 366، زیادتی کی کوشش کے 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 158 واقعات رپورٹ ہوئے۔
گذشتہ برس بچوں سے جنسی استحصال کے کل 3445 واقعات پیش آئے۔ تاہم ان اعداد وشمار کو 2020 کے اعداد و شمار سے کم بتایا گیا ہے جو کہ 694 کیسز زیادہ تھے۔
رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں 109 ایسے واقعات ہیں جن میں بچوں کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا اور 2020 کی نسبت اس قسم کے واقعات میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں 58 فیصد بچیاں اور 42 فیصد بچے تھے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس کل 3445 میں سے 1746 کیسز ریپ کے تھے۔ یہ تعداد اغوا، لاپتہ اور کم عمری میں شادی کے کیسز کے علاوہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق 29 فیصد واقعات میں مجرموں نے بند جگہوں کا استعمال کیا جبکہ 15 فیصد جرائم کھلی جگہوں پر ہوئے لیکن 1790 ایسے کیسز تھے جن میں جائے وقوعہ کا ذکر نہیں ملتا۔
جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں میں 640 کی عمر چھ سے 10 برس کے درمیان تھی جبکہ 961 کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان بتائی گئی۔
76 فیصد کیسز دیہی علاقوں میں جبکہ 24 فیصد شہروں میں پیش آئے۔
اگر صوبائی اعتبار سے دیکھا جائے تو پنجاب میں 63 فیصد، سندھ میں 27، بلوچستان میں چار فیصد، خیبر پختونخوا میں دو فیصد اور دارالحکومت اسلام آباد سے تین فیصد کیسز سامنے آئے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بارہ کیسز اور گلگت بلتستان میں تین کیسز سامنے آئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 72 فیصد کیسز پولیس کے پاس درج کروائے گئے، 99 کیسز ایسے تھے جنھیں پولیس نے درج کرنے سے انکار کیا اور 797 ایسے کیسز تھے جن کے سٹیٹس کے بارے میں پولیس کو معلوم نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس بچوں کا استحصال کرنے والے افراد میں زیادہ تر ان سے واقفیت رکھتے تھے۔ یہ تناسب 43 فیصد بتایا گیا ہے جبکہ 2016 کے برعکس 2017 میں ایسا کرنے والے افراد میں اجنبیوں کی تعداد 36 فیصد کم ہوئی ہے۔
بچوں کے اغوا کے سب سے زیادہ واقعات راولپنڈی میں پیش آئے۔
لڑکیوں کے اغوا کے بعد زیادتی کے واقعات میں 13 فیصد اضافہ ہوا۔