افسر اور دفترتازہ ترینتھانہ کچہری

بہاولپور میں 14 سالہ لڑکی کی 55 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام بنا دی گئی

(شیتل ملک )بہاولپور کے علاقے اوچ شریف میں 14 سالہ لڑکی کی 55 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام بنادی گئی۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دلہن کے والدین، دولہا اور نکاح کے گواہ اور متعدد باراتیوں کو گرفتار کرلیا۔

دلہن کا کہنا ہے کہ اس کے والد نے دولہا سے قرض لے رکھا تھا، دولہا نے قرض کی ادائیگی کا دباؤ ڈالتے ہوئے میرا رشتہ مانگا تھا۔

دلہن کے مطابق اس کی زبردستی شادی اور رخصتی کی جارہی تھی۔

  چائلڈمیرج یعنی ‘کم سنی کی شادی’ کو سنگین عالمی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ کھیلنے کودنے کی عمر میں نابالغ بچوں کو شادی جیسے ٹھوس بندھن میں باندھ دینا دنیا میں کوئی نیا تصور نہیں بلکہ یہ معاشرتی برائی ہزاروں سالہ انسانی تاریخ کے ساتھ پلتی اور بڑھتی آ ئی ہے۔

چائلڈ میرج کی روک تھام کے حوالے سے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر شادی کیلئے مقررہ عمر 18 سال ہے اور عالمی کنونشنز میں واضح طور پر کم عمری کی شادیاں بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل (2)16کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC) میں حق بقا، غیر مناسب سلوک اور استحصال سے تحفظ سمیت بچوں کو اپنے خاندان کی ثقافتی اور سماجی زندگی میں مکمل طور پر شمولیت کا حق دیا گیا ہے،

لہٰذا ان بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرنے والے پاکستان سمیت تمام ممالک پر پابندی لاگو ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں بچیوں کو تحفظ اور تمام حقوق فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اسی طرح اس حوالے سے پاکستان کے چند قوانین کی بات کریں تو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310-A کے تحت کسی لڑکی کو شادی کیلئے بغیر رضامندی زبردستی تیار کرنے پر 3 سال قید اور 5 لاکھ تک کا جرمانہ ہے۔

اس وقت ملک میں چائلڈ میرج کی روک تھام کیلئے 1929 کاChild Marriage Restraint Act لاگو ہے۔ جس میں شروعات میں شادی کیلئے لڑکی کی کم سے کم عمر 14 سال مقرر تھی ، پھر 1961 میں اس قانون میں ترمیم کے بعد لڑکیوں کیلئے یہ عمر بڑھا کر 16 سال کر دی گئی۔ 2010 میں 18ویں ترمیم کے بعد کم عمری کی شادی صوبائی مسئلہ بن گیا۔ جس کے بعد سے پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لڑکے اور لڑکی کی کم سے کم عمریں 18 اور 16 سال ہی ہیں۔ جبکہ سندھ میں قانون سازی کے بعد لڑکی اور لڑکے دونوں کی عمر 18 سال مقرر کر دی گئی تھی۔

پنجاب حکومت نے بھی 2015 میں 1929 میرج ایکٹ میں کچھ ترامیم کیں، جس کا نام چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2015 رکھا گیا تھا مگر اس میں بنیادی قانون کو نہیں چھیڑا گیا بلکہ صرف سزاؤں کی حد تک تبدیلی ہوئی۔ پنجاب میں اس حوالے سے نئے قانون کا مسودہ تیاری کے مراحل میں ہے جس میں لڑکی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

اسی طرح تحفظ حقوق نسواں بل ایکٹ 2006ء میں ترمیم کر کے شق 375 کا اضافہ کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 16 سال سے کم عمر لڑکی سے اس کی مرضی کے بغیر یا زبردستی شادی کرنے والے کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے ، جس کی سزا 5 سے 25 سال قید ہے۔ مگر یہ قانون صرف کاغذی ہی ثابت ہوا اور آج تک کسی بھی فرد کو اس قانون کے تحت سزا ملنے کا نہیں سنا گیا۔

چنانچہ اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کم سنی کی شادی کی روک تھام کیلئے ایک تو قوانین نہایت کم ہیں اور دوسرا ان کمزور قوانین ہر عمل ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جبکہ دیگر ممالک کی مثال لی جائے تو چند ماہ قبل سعودی عرب کی شوری کونسل نے چائلڈ میرج پروٹیکشن نامی مضبوط بل کو پاس کیا ہے جس کے بعد تاریخ میں پہلی بار سعودی خواتین کیلئے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مختص کی گئی ہے اس سے قبل وہاں شادی کیلئے لڑکیوں کی عمر کا تعین کیا ہی نہیں جاتا تھا۔

اسی طرح مسلم آبادی والے دنیا کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا میں سخت تنقید کے بعد لڑکیوں کی شادی کے لیے نیا قانون منظور ہوا جس میں لڑکی کی عمر 19 سال مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ بھارت میں شادی کی کم سے کم عمر عورت کیلئے 18 اور مرد کیلئے 21 سال مقرر ہے۔

یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کم سنی کی شادی کا شکار صرف لڑکیاں نہیں بلکہ لڑکے بھی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر پانچویں لڑکے کی شادی بھی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے۔ اٹھارہ برس سے قبل ہی دلہا بنا دیے جانے والے ایسے بچوں کی سالانہ تعداد 115 ملین بنتی ہے۔ جنہیں اس عمر میں نہ گھر چلانے کی سمجھ بھوج ہوتی ہے اور نہ ہی رشتہ ازدواج کی اہمیت و فکر ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ شادی کو صرف ایک کھیل سمجھتے ہوئے جلد ہی اس سے جان بھی چھڑوا لیتے ہیں یعنی کہ کم سن جوڑوں میں طلاقیں ہوجاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button