ملکہ برطانیہ کی زندگی پر ایک نظر

( مانیٹرنگ ڈیسک ) الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈسر (ملکہ الزبتھ کا پورا نام) 21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ان کی پیدائش کے وقت دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر برطانیہ کی حکومت تھی۔سلطنتِ برطانیہ کی وسعت کے بارے میں گزشتہ صدی کے وسط تک یہ کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔
جب ملکۂ الزبتھ دوم تخت نشیں ہوئیں تو دنیا کے کئی خطوں میں تاجِ برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا تھا۔لیکن وہ اب بھی رسمی طور پر برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک کی سربراہِ ریاست ہیں۔
اپنے اس 70 سالہ دورِ حکومت میں ملکہ برطانیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن اس طویل ترین دورِ حکمرانی کا آغاز ایک اتفاق کا نتیجہ تھا۔
الزبتھ چھ فروری 1952 کو بادشاہ جارج ششم کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوئیں تھیں۔ اس وقت وہ بین الاقوامی دورے پر کینیا میں تھیں جب کہ تب کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت ایک درجن سے زائد علاقے تخت برطانیہ سے جڑے تھے۔ ملکہ الزبتھ کے شوہر شہزادہ فیلِپ ننانوے برس کی عمر میں پچھلے سال انتقال کر گئے تھے۔
ملکہ برطانیہ پچھلے ستر سال سے تاجِ برطانیہ سر پر سجائے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر ملکہ برطانیہ کی دو گھوڑوں کے ہمراہ تصویر جاری کی گئی ہیں۔ ملکہ رواں برس تخت نیشنی کی پلاٹینیم جوبلی بھی منائی۔
جب ملکہ نے تاج پہنا اس وقت سوویت یونین میں جوزف اسٹالن اور چین میں ماؤزے ڈونگ حکمران تھے جب کہ امریکا میں ٹرومین صدر تھے۔ خود برطانیہ میں ونسٹن چرچل وزیراعظم کے منصب پر کام کر رہے تھے۔
رواں برس فروری میں ملکہ الزبتھ کووِڈ انیس میں مبتلا ہوئیں تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ اس بیماری کے بعد وہ خود کو بہت کم زور محسوس کر رہی ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ملکہ نے ایک شب ہسپتال میں گزاری تھی، تاہم ان کی بیماری سے متعلق تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔ اسی تناظر میں وہ پچھلے کچھ عرصے سے عوامی تقریبات میں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ گزشتہ ماہ لیکن اپنے شوہر کی برسی کے موقع پر وہ لندن کے ویسٹ منسٹر قبرستان میں شاہی خاندان اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ نظر آئی تھیں۔
برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے جارج ششم کے گھر 21 اپریل 1926 کو جنم لینے والی الزبتھ الیگزینڈرا شاہی خاندان کا حصہ تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے خود بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن ان کے سر پر بادشاہت کا تاج سجے گا۔
الزبتھ کے والد جارج ششم سے پہلے ان کے بڑے بھائی ایڈورڈ ہشتم برطانیہ کے بادشاہ تھے جو 20 جنوری سے 11 دسمبر 1936 تک اس منصب پر براجمان رہے۔ایڈورڈ ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں گرفتار تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔
برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے جارج ششم کے گھر 21 اپریل 1926 کو جنم لینے والی الزبتھ الیگزینڈرا شاہی خاندان کا حصہ تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے خود بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن ان کے سر پر بادشاہت کا تاج سجے گا۔
الزبتھ کے والد جارج ششم سے پہلے ان کے بڑے بھائی ایڈورڈ ہشتم برطانیہ کے بادشاہ تھے جو 20 جنوری سے 11 دسمبر 1936 تک اس منصب پر براجمان رہے۔ایڈورڈ ایک طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس وارفیلڈ سمپسن کی محبت میں گرفتار تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔
رطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ چرچ کے تحت شادی کا رشتہ پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے اور طلاق یافتہ افراد کا شریکِ حیات اگر زندہ ہو تو کسی اور سے اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ طلاق کے بعد ویلس کے سابق شوہر چوں کہ بقید حیات تھے تو اسی بنیاد پر چرچ بادشاہ کی ان سے شادی کی مخالفت کررہا تھا۔شاہی خاندان اور چرچ آف انگلینڈ کی سخت مخالفت کے باوجود ایڈورڈ نے ویلس سے اپنی شادی کا ارادہ ترک نہیں کیا البتہ بادشاہت چھوڑ دی۔
ایڈورڈ کے اس فیصلے کے نتیجے میں ان کے چھوٹے بھائی اور الزبتھ کے والد جارج ششم کو برطانیہ کی بادشاہت ملی۔یہ وہی بادشاہ جارج ہیں جنہیں ہکلاہٹ کی شکایت تھی اور اس پر قابو پانے کے لیے ان کی مستقل مزاجی سے کی گئی کوششوں کو 2010 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کنگز سپیچ‘ میں دکھایا گیا ہے۔
جارج ششم کی موت کے بعد 1954 میں صرف 25 برس کی عمر میں الزبتھ ملکہ بنیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ اس معاملے پر چرچ کے مؤقف میں نرمی آئی اور 2018 میں شہزاہ ہیری کی طلاق یافتہ امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے شادی پر چرچ آف انگلینڈ معترض نہیں ہوا۔
یہ اتفاق ہی کا نتیجہ تھا کہ ان کے والد کے بڑے بھائی نے محبت کی خاطر تاج کو ٹھکرا دیا جس کے بعد بادشاہت پہلے ان کے والد کو ملی اور پھر ملکہ الزبتھ کے حصے میں آئی۔ آج وہ اس منصب پر سب سے طویل عرصے تک فائز رہنے والی برطانوی حکمران بن چکی ہیں۔
الزبتھ دوم اس دور میں ملکہ بنی تھیں جب برطانیہ 1946 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے اثرات سے نکل رہا تھا۔ انہوں ںے اپنے دور میں کئی وزرائے اعظم، صدور، پوپ بدلتے دیکھے۔ سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کا انہدام بھی اسی ستر سالہ تاریخ کا حصہ ہے۔
انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور کرونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی حالات بھی دیکھے۔ ان ستر برسوں میں دنیا کی سیاست اور سماج میں کئی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن وہ نہ صرف اپنے منصب پر برقرار رہیں بلکہ انہیں برطانیہ میں استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ماضی میں شاہی فرماں روا اپنی کسی خصوصیت کی بنا پر دیے گئے لقب کی وجہ سے بھی یاد رکھے جاتے ہیں مثلاً برطانیہ میں ولیم فاتح، الفریڈ اعظم وغیرہ۔ شاہی مؤرخ ہیوگو وکرز کا کہنا ہے کہ ملکہ الزبتھ کی زندگی کو دیکھا جائے تو ان کے لیے ایک ’ثابت قدم‘ کا لقب ذہن میں آتا ہے