نیب قوانین میں بغیر سوچے سمجھے ترامیم سے منفی صورتحال سامنے آ سکتی ہے، چیف جسٹس

(سفیان سعید خان)نیب قانون میں ترامیم کے خلاف کیس میں چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیر ہی کیس بنایا گیا تھا۔
نیب قانون میں ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، اور دوران سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے بڑے سوالات اٹھا دیئے۔
جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، نیب قانون میں ترامیم کا جائزہ عالمی معیار اور مقامی قانون کے تناظر میں لیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مشترکہ فیصلوں پر کیا پوری کابینہ اور کمیٹی کو ملزم بنایا جائے گا، پوری کابینہ یا کمیٹی ملزم بنے گی تو پھر فیصلے کون کرے گا، ہر کام پارلیمان کرنے لگی تو فیصلہ سازی سست روی کا شکار ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں شاہد خاقان عباسی و دیگر کیخلاف عمران دور میں بنائے گئے ایل این جی ریفرنس کا حوالہ بھی دے دیا، اور ریمارکس دیئے کہ ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیر ہی کیس بنایا گیا تھا، ایسے معاہدے حکومتی سطح پر ہوتے ہیں، کئی بیوروکریٹ ریفرنس میں بری ہوئے لیکن انہوں نے جیلیں کاٹیں۔
سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی خان نے پوچھا کیا نیب سے بچنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟ کیا ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999ء میں آتا تو چیلنج ہوتا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، عالمی معیاراورمقامی قانون کے تناظر میں نیب ترامیم کا جائزہ لیں گے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
وکیل عمران خان، خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ کابینہ اور ورکنگ ڈویلپمینٹ پارٹیز کے فیصلے بھی نیب دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ کمیٹیوں اور کابینہ میں فیصلے مشترکہ ہوتے ہیں، مشترکہ فیصلوں پر کیا پوری کابینہ اور کمیٹی کو ملزم بنایا جائے گا؟ پوری کابینہ یا کمیٹی ملزم بنے گی تو فیصلے کون کرے گا؟
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہر کام پارلیمان کرنے لگے تو فیصلہ سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوجائے گا۔ ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیرکیس بنایا گیا تھا۔ ایل این جی سطح کے معاہدے حکومتی لیول پر ہوتے ہیں۔ کئی بیوروکریٹ ریفرنس میں بری ہوئے لیکن انہوں نے جیلیں کاٹیں۔ بعض اوقات حالات بیوروکریسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے سسٹیمیٹک کرپشن کو فروغ ملے گا۔ ترمیم سے اجازت دی گئی کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔ عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے سسٹیمیٹک کرپشن کو فروغ ملے گا۔ ترمیم سے اجازت دی گئی کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔ عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ حالیہ نیب ترامیم انسداد کرپشن کے عالمی کنونشن کے بھی خلاف ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے سسٹیمیٹک کرپشن کو فروغ ملے گا۔ ترمیم سے اجازت دی گئی کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔ عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم سے سوچے سمجھے طریقے سے کرپشن کو فروغ ملے گا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
فواد چوہدری کی گفتگو
عدالت کے باہر پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارلیمان کے اختیار پر ہی انگلی اٹھا دی۔ سینئر نائب صدر پی ٹی آئی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا اختیار استعمال نہیں کرسکتی جو لوگوں کی منشا کے خلاف ہو۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے آنے والے ثبوت اب نیب میں قابل قبول نہیں، مجھے امید ہے سپریم کورٹ ان قوانین کا جائزہ لے گی اور کالعدم قرار دے گی۔