پاکستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، 6 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق

( اسد شہسوار )جنوبی خیبر پختونخوا سے مزید ایک پولیو کیس کی تصدیق ہوئی ہے، 6 ماہ کے بچے کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے، رواں سال پاکستان سے رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد 19 ہو گئی۔
ترجمان انسداد پولیو پروگرام کے مطابق رواں سال 2 کیسز لکی مروت، 16 کیسز شمالی وزیرستان، ایک جنوبی وزیرستان سے رپورٹ ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس پر قابو پانا پاکستان پولیو پروگرام کی ترجیح ہے، نئی حکمت عملی کے تحت بچوں کو ٹیکوں کے ذریعے پولیو ویکسین دی جارہی ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ ویکسین شدہ بچوں کو صابن دیا جارہا ہےاور ان علاقوں میں وائرس کی نگرانی کا نظام مزید مؤثر بنایا گیا ہے۔
ترجمان انسداد پولیو پروگرام کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث صوبہ بلوچستان اور سندھ کے 23 اضلاع میں مہم نہیں ہوئی، جبکہ اگست کی پولیو مہم میں 33 ملین بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلائے گئے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی پولیو کے کیسز کی تشخیص کی گئی ہے۔ انتہائی حیرت ناک پیش رفت میں نو سال بعد امریکی شہر نیو یارک میں بھی ایک شخص میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
اگرچہ بر اعظم افریقہ کو پولیو فری قرار دیا جا چکا ہے لیکن وہاں بھی پولیو کیسز سامنے آئے ہیں۔ سرکاری سطح پر پاکستان اور افغانستان کے علاوہ باقی ممالک کو پولیو فری قرار دیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں اس سال بقیہ 12 کیسزشمالی وزیرستان میں رپورٹ ہوئے تھے۔ یہ علاقہ پاکستانی طالبان کے کنٹرول میں رہا ہے۔ سن 2014 میں ایک عسکری آپریشن کے ذریعے پاکستانی فوج نے اس علاقے سے طالبان کا صفایا کر دیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے، ”یہ پہلا کیس ہے جو شمالی وزیرستان کے باہر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ شالی وزیرستان میں اب بھی ویکسین فراہم کرنے والے عملے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی مذہبی رہنما اور کچھ والدین کی جانب سے پولیو ورکرز کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ دو پولیس اہلکاروں سمیت ایک پولیو ورکر کو خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کے دوران مار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں کئی پولیو وزرکرز کام کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستانی طالبان پولیو مہم کو غیر اسلامی ٹھراتے ہیں۔ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے دوران پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو ورکر کا روپ دھارا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی سے کو فراہم کی جانے والی معلومات اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا پتا لگانے میں کلیدی ثابت ہوئی تھیں۔
اس واقع نے بھی پاکستان میں پولیو مہم کو زبردست دھچکا پہنچایا تھا۔ کچھ مذہبی رہنماؤں کے مطابق پولیو کے قطرے مغربی ایجینڈے کا حصہ ہیں۔ ان کے سازشی نظریات کے مطابق پاکستانی بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔