اپنے محسنوں سے یہ سلوک : تجھ کو بھلا کیا معلوم-

فیصل آباد کے تحصیل جڑانوالہ میں پچھلے ہفتے مسلم مشتعل مظاہرین کی جانب سے مسیحی بستی پر حملوں ،باقاعدہ گھیراؤ اور جلاؤ کیا گیا جس کے دوران درجنوں مکانات، گاڑیاں اور دوسری املاک جل کر خاکستر ہو گئیں۔اس بہیمانہ فعل کی بظاہر وجہ یہ خبر یا افواہ تھی کہ دو مسیحی نوجوانوں نے قران پاک کی بیحرمتی کی ہے۔یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ باقاعدہ مسجدوں سے مسیحی برادری کے خلاف اشتعال انگیزاعلانات ہونے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ضلع میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور عیسائی برادری کے ساتھ سرکاری عمارات و املاک بھی مشتعل ہجوموں کے غیض و غضب کے نشانہ بننے لگیں۔ علاقے میں رہنے والے مسیحی خاندان تو اس حد تک خوف و دہشت کا شکار ہوئے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بچوں سمیت قریبی کھیتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ اس پر قابو پانے کے لیے شہر کو رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کے حوالے کر دیا گیا۔تمام کاروباری مراکز اور بازار بند کر دیے گئے اور پورے ضلع میں عام تعطیل تک کا اعلان کرنا پڑا – اس تمام ہنگامے میں کم از کم 22 چرچ کی عمارتوں کو تباہ کر نے کے ساتھ ایک عیسائی قبرستان اور مسیحی ا سسٹنٹ کمیشنر کے دفتر کو تہس نہس کیا گیا اور 220 مکانات جل کر راکھ ہو گئے-واضح رہے کہ عیسائیو ں کی یہ بستی سو سال سے بھی زیادہ قد يم ہے- تقسیم سے قبل اس کا نام کر یسچن کا لونی تھا جو اب نصرت کالو نی کہلاتی ہے ۔
غیر مسلم پاکستانیوں (جنہیں ہم اقلیتیں کہتے ہیں )بلخصوص عیسائیوں کے خلاف ہونے والا یہ کوئی پہلا افسوسناک واقعہ نہیں ہے۔ مزہبی اقلیتوں کے خلاف تواتر سے ہونے والے اس نوع کے واقعات کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت اقلیتوں کی تعداد کل آبادی کا محض تین سے چار فیصد رو گئی ہے جو 1947 میں 22 سے 25 فیصد تک تھی۔
عام پاکستانیوں کو یہ بات معلوم بھی نہ ہوگی کہ 1947 میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایک عیسائی تھے جن کا نام دیوان بہادر ستیا پرکاش سنگھا تھا اور عرف عام میں وہ ایس۔ پی سنگھا کہلاتے تھے۔ سنگھا مارچ 1940 میں لاہور کے منٹو پارک (اب اقبال پارک) کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسہ/ اجلاس میں موجود تھے جہاں قرار داد لاہور ،جسے بعدازں قرار داد پاکستان کہا جانے لگا منظور کی گئی تھی۔اس وقت تک متحدہ بھارت میں عیسائیوں کی اکثریت کی نمائندگی ایک سیاسی تنظیم” آل انڈیا کانفرنس آف انڈین کرسچنز ” کرتی تھی۔ یہ تنظیم ہندوستان کی تقسیم کی مخالف تھی اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کی اتحادی تھی۔ قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے دو سال بعد 1942 میں سنگھا نے اپنی ایک الگ عیسائی تنظیم بنا لی جس کا نام ”آل انڈین کرسچن ایسو سی ایشن ”رکھا گیا۔ 9 نومبر 1942 کو ضلع لائل پور (اب فیصل آباد)میں جہاں عیسائیوں کی بستی برباد کر دی گئی ہے ،مسلم لیگ نے اپنا سالانہ کنونشن منعقد کیا تھا ۔سنگھا نے اپنے عیسائی ساتھیوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کے ساتھ جن کی اکثریت اسی ضلع سے تعلق رکھتی تھی,اس کنونشن میں شرکت کی تھی اور محمد علی جناح کو عیسائی برادری کی طرف سے مکمل یکجہتی کا یقین دلایا تھا ۔ اسی اجلاس میں سنگھا نے برٹش سرکار سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ پورے متحدہ ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔ 1946 میں پنجاب میں ہی عیسائیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ متحدہ ہندوستان کے عیسائیوں کے مرکزی رہنما محمد علی جناح ہیں۔جناح نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا تھا کہ” ہم عیسائیوں کے احسانات اور قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔”جب پنجاب کی تقسیم کا اعلان ہو گیاتو سنگھا نے اپنی تنظیم کے ذریعے عیسائیوں کو یہ تلقین کرنی شروع کر دی کہ جو عیسائی بھارتی پنجاب میں رہتے ہیں وہ بھی پنجابی مسلمانوں کے ساتھ مغربی پنجاب(پاکستانی پنجاب) کی طرف ہجرت کر جائیں۔
سنگھا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پنجاب میں رہنے والے ہزاروں عیسائیوں نے بھی پاکستان کی طرف ہجرت کی جس میں سے ایک خاندان مشہور گلوکار نوئل ڈیاس Noel Dais کا بھی تھا۔نوئل ڈیاس 1932 میں امرتسر میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد یہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے اور لاہور میں سکو نت اختیار کی۔انہوں نے اپنا نام بھی تبدیل کر کے سلیم رضا رکھ لیا -60 کی دہائی میں یہ پاکستان کے سب سے مقبول گلوکار تھے اور انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ان گنت لازوال نغمے دیے۔ ان کا گایا ہوا ایک گیت” تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم "بہت مقبول ہوا جو آج بھی مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو پسند ہے۔1974 میں قادیانیوں کو پاکستان میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا -سلیم رضا کو غالباً پاکستان میں آنے والے دنوں اور حالات کا ادراک ہو گیا تھا لہٰذا اور وہ اپنی زندگی کی دوسری ہجرت ، کینیڈا کی جانب کرنے پر مجبور ہو گئے -کہتے ہیں کہ جب ان کے چاہنے والے عزیز و اقارب پوچھتے تھے کہ ” بھائی تم کیوں کینیڈا جانے کے لیے کمر بستہ ہو” تو وہ یہ ہی گانا گنگنانے لگتے تھے کہ ”تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم”۔مذہبی جنون میں مبتلا گروپوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ فرینک ڈیسو زا جو ایک عیسائی تھے اور متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے وہ پہلے ہندوستانی تھے جن کو برٹش سرکار نے انڈین ریلوے بورڈ کا ممبر بنایا تھا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی چھوڑ کر دہلی جا رہے تھے۔ اس وقت پاکستان ریلوے کی بحثیت ادارہ تشکیل نہیں ہوئی تھی اور پاکستان ریلوے بورڈ بھی نہیں بنا تھا ۔محمد علی جناح نے خاص طور پر فرینک ڈیسو زا سے درخواست کی کہ وہ ابھی دہلی نہ جائیں اور اس وقت تک کراچی میں رکے رہیں جب تک پاکستان ریلوے بورڈ کی تشکیل نہ ہو جائے اور پاکستان ریلوے کے معاملات نئی انتظامیہ کی گرفت میں نہ آ جائیں ۔ فرینک ڈی سوزا نے محمد علی جناح کی یہ بات مان لی۔ فرینک ڈیسوزا ,کراچی میں ایک بہت شاندار گھر میں رہائش پذیر تھے جو ان کی ذاتی ملكیت تھا ۔وہ اس گھر کو چھوڑ کر جا رہے تھے اور اس زمانے کے قاعدہ قانون کے حساب سے اس گھر پر حکومت پاکستان کا قبضہ ہو جانا تھا -فرینک ڈی سوزا نے فرمائش کی کہ یہ گھر مجھے واپس کر دیا جائے اور حکومت پاکستان اس پر قبضہ نہ کرے -جناح صاحب اور حکومت پاکستان نے ان کی بات مان لی۔جب وہ اپنی تمام زمہ داریا ں کو پورا کرنے کے بعد ہندوستان واپس جانے لگے تو اپنا گھر ایک فلاحی تنظیم کو عطیہ کر گئے، جس نے اس میں لاوارث بزرگ شہریوں کے لئے ایک پناہ گاہ بنالی ۔
پاکستان کی مسلم اکثریت کو یہ بتانے کی بھی شدید ضرورت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ / امہات المومنین خدیجہ الکبر ی کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل مذہبا عیسائی تھے، وہ دنیا کے پہلے انسان تھے جنہوں نے بائیبل میں پڑھی ہوئی پیش گوئیوں کی مدد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہونے کے بعد پہچان لیا تھا کہ آپ ہی نبی آخرلزماں ہیں اور آپ نے باقاعدہ حضرت خدیجہ کے سامنے اس کی تصدیق بھی کی تھی-
سلیم رضا کے گیت کا یہ بول "تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم ” ہماری بڑھتی ہوئی ذہنی پسماندگی کی واقعی بڑی سچی ترجمانی کر تا ہے –
