بلاگ

میں جیمز بانڈ 007 ہوں

میں جیمز بانڈ 007 ہوں زیر نظر تصویر میں ،میں بیچ لگژی ہوٹل کراچی کے اس ریسٹورنٹ میں کھڑا ہوں جو 1950 سے لے کر 1977 کراچی کا ایک مشہور نائٹ کلب تھا۔بیچ لگژری ہوٹل کی تعمیر 1946 میں شروع ہوئی اور اس کا افتتاح 21 مارچ 1948 کو ہوا۔جب اس ہوٹل کی تعمیر شروع ہوئی تو کراچی متحدہ ہندوستان کا ایک درمیانے درجے کا شہر تھا۔ لیکن جب اس کا افتتاح ہوا تو یہ ایک آزاد مملکت پاکستان کا حصہ تھا اور کراچی شہر پاکستان کا دارالحکومت بن چکا تھا۔پاکستان کا قیام ایک جمہوری اور ترقی پسند ریاست کے طور پر ہوا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہاں غیر جمہوری اور رجعت پسند قوتوں کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔1950 کا سال پاکستان کے لیے ایک چمکتا دمکتا ترقی کی طرف گامزن ہوا سال تھا۔ 1950 میں ہی بیچ لگژری ہوٹل میں یہ نائٹ کلب قائم کیا گیا اور اس کا نام جمیز بونڈ 007 رکھا گیا ۔ 1960 کی ابتدا سے ہی اس وقت کے کراچی کے مقبول ترین میوزک بینڈ جمپنگ جیولز jumping jewels نے اپنی مدھر موسیقی کی تانیں اس کلب میں چھیڑ نا شروع کردی تھیں ۔ اس کے سربراہ گلوکار جانی لائین تھے یہ 007 نائٹ کلب میں موسیقی دینے کے ساتھ ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگاتے تھے ان کے نغمے ریڈیو پاکستان کراچی کے انگریزی گانوں کے پروگرام میں بھی نشر ہوتے تھے ۔ انگریزی نغموں کا یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن سے دوپہر ڈیڑھ بجے نشر ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کی راتیں جاگتی تھیں امیر غریب سب کے لیے شراب اور شراب خانے اور کسینو موجود تھے۔ نائٹ کلبس تھے جہاں مقامی اور غیر مقامی رقاصائیں اپنے فن اور جسم دونوں کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ تفریحی کے یہ مراکز امیروں کے لیے بھی تھے اور غریبوں کے لیے بھی تھے۔ جہاں وہ اپنے من اور جسم کی پیاس بجھا سکتے تھے۔

تحریر انور اقبال

کراچی صدر کے علاقے میں گوا کے رہنے والے لوگوں کی اکثریت تھی۔جو بنیادی طور پر کرسچن تھے۔ ان کی خواتین کا لباس اسکرٹ اور بلاوز تھا یہ اس مغر بی لباس میں بڑی آزادی سے کراچی کے مرکزی علا قے،صدر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی نظر آتی تھیں۔کراچی گوان ایسو سی ایشن کے کلب میں بھی رقص کی محفلیں سجتی تھیں۔تقسیم ہند سے بہت پہلے گوا سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ کراچی میں رہ رہے تھے۔ سب سے پہلے 1850 میں گواکے لوگ کراچی آئے، جب کراچی ایک چھوٹی سی ماہی گیروں کی بستی تھی۔ 1947 میں تقسیم کے وقت کراچی سے ہندو جا رہے تھے جو کراچی کی معشیت اور ثقافت میں ریڑ ھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے تھے ان کی جگہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لٹے پٹے مہاجر آ رہے تھے یہ ایک ایسا وقت تھا جب گوان اور پارسی دو کمیونٹی کے لوگ ایسے تھے جنہوں نے کراچی کو سنبھالا تھا اور ان ہی لوگوں کی کوششوں سے تھوڑے ہی دنوں میں کراچی ایک منظم اور جدیدکا سموپولیٹن شہر کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا تھا ۔

1960 کی دہائی آتے آتے کراچی ایک جھومتا گاتا بین الاقوامی حیثیت کا شہر بن گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بمبئی بھارت کی مرکزی حکومت کی کنزرویٹو پالیسیوں میں جکڑا ہوا تھا۔دبئی ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ جنوب مشرق ایشیا کا سنگا پور ابھی تک غیر ملکی تسلط میں تھا۔تھائی لینڈ کا بنکاک ویتنام کی جنگ وجہ سے خوفزدہ اور سہما ہوا تھا۔

1964 کے انگریزی اخبار Dawn میں Beach Luxury Hotel کا اشتہار

ایسے وقت میں مغربی دنیا سے مشرقی دنیا کی طرف مائل بہ پروار تمام ایئر لائنز کراچی کے ہوائی اڈوں پر ضرور ٹہرتی تھیں ۔اس وقت کی دنیا کی تین سب سے بڑی ایئر لائن کمپنیوں نے اپنے رہائشی ہوٹل کراچی میں قائم کیے ہوئے تھے۔برطانیہ کی اس وقت کی سب سے بڑی ایئر لائن ”برٹش اورسیز ائیروز کارپوریشن” B.O.A.C نے کراچی ایئرپورٹ پر ہی ”اسپیڈ برڈ ہاؤس” کے نام سے سو کمروں کی گنجائش والا ایک ہوٹل 1955 میں قائم کیا تھا۔ اس ہوٹل کو 1973 میں پی آئی اے نے خرید لیا اور اب یہ ”ایئرپورٹ ہوٹل”کہلاتا ہے اور آج اسکے درو دیوار ویرانی کا ایک عنوان ہیں”

1970 میں نائٹ کلب کا اشتہار کراچی کے انگریزی اخبار Dawn میں

1953 میں ایئرپورٹ پرواقع ا سٹار گیٹ کے بالکل سامنے مین شارع فیصل پر ایئر فرانس کے اشتراک سے ہوسٹلری ڈی فرانس قائم کیا گیا۔ یہاں پر ایئر فرانس کا عملہ اور ایئر فرانس کے ٹرانزٹ مسافر ٹہرا کرتے تھے۔ اس کے قریب ہی ایئرپورٹ کی جانب ہوٹل مڈ وے ہاؤس تھا جو ہالینڈ کی ایئرلائن KLM کے زیر انتظام تھا ان تمام ہوٹلوں میں ڈانسنگ فلور تھے اور تواتر سے ڈانس پارٹیز ہوتی تھیں۔ آج بدقسمتی سے دنیا کی یہ تینوں بڑی ایئر لائینز کراچی کا رخ ہی نہیں کرتیں۔ اب رہی بات جیمز بونڈز 007 کی تو نائٹ کلبوں پر پابندی کے بعد یہ محض ایک طعام گاہ یا ریسٹورنٹ بن کر رہ گیا اور یہاں کی رنگین شامیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور فنکاروں کی طرح جانی لئین بھی پاکستان سے ہجرت کر گئے تھے ۔ہوسلٹری ڈی فرانس کی عمارت آج بھی موجود ہے اور ديدۀ عبرت بنی ہوئی ہے البتہ ہوٹل مڈوے ہاؤس ابھی بھی زندہ ہے اور رماڈا پلازہ ہوٹل کہلاتا ہے ۔

یہ سب کیسے اور کیوں ہوا۔یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے ۔دلچسپ بات یہ کہ اس سانحہ کی ابتدا ایک جمہوری حکومت کے دور میں ہوئی۔ذوالفقار علی بھٹو جو ملک کے پہلے براہ راست انتخابات کے نتیجے میں ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے انہوں نے رجعت پسند قوتوں کے دباؤ میں آکر اپریل 1977 میں قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کرتے ہوئے اس امر کا اعلان کیا کہ شراب،نائٹ کلبس جوئے اور ریس (گھڑ دوڑ ) پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ لیکن ان کا یہ اقدام بھی ان کی حکومت کو نہ بچا سکا اور صرف تین ماہ بعد 5 جولائی 1977 کو ضیاء الحق کی سربراہی میں فوج نے اقتدار پر براہ راست قبضہ کر لیا۔ ضیا الحق کے دور حکومت میں مذہبی انتہا پسندی کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں نسلی اور مذہبی انتہا پسندی بڑھنے لگی کراچی بین الاقوامی حیثیت کھونے لگا ۔غیر ملکی سیاحوں نے کراچی بلکہ پاکستان کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ایسے میں پڑوسی ملک ایران میں کٹر مذہبی حکومت قائم ہوگئی اور افغانستان میں روسی مداخلت کی وجہ سے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور کراچی ایک بین الاقوامی تفریحی مقام کے بجائے متحارب گروہوں کی پراکسی وار کی لیے میدان جنگ بن گیا۔

آج اکثر ماضی کے کراچی کی معطر فضاوں کی جگہ خودکش اور بم دھماکوں کر کی وجہ سے بارود کی بو پھیل جاتی ہے۔ نسلی عصبت کے مارے لوگ ایک دوسرے کے بستیوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کے خون سے ان بستیوں کے دردیوار رنگین کر دیتے ہیں

اور رہی سہی کسر چور اور ڈاکو پوری کر دیتے ہیں آج کراچی کی عوام سہمے ہوئے ہیں اور ارباب اختیار ہمیشہ کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button