بازار اور کاروباردین و دنیاریاست اور سیاست

سودی نظام کے خلاف شرعی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرائی جائے، مولانا اسد محمود کا اپنی اتحادی حکومت سے مطالبہ

( رضا ہاشمی ) سودی نظام کے خلاف شرعی کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی ماحول گرم ہو گیا ہے ۔ پارلیمانی رہنما جمعیت علمائے اسلام ف اسد محمود نے قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس بات کی وضاحت کرے کہ نیشنل بینک آف پاکستان اس فیصلے کے خلاف عدالت کیوں جا رہا ہے، اگر کوئی ابہام ہے تو ہمارے سامنے رکھیں ہم دور کریں گے ہم اتحادی ہیں ہم سے پوچھے بغیر آپ کیسے اپیل میں جا سکتے ہیں؟

دوسری طرف سوشل میڈیا پر الائیڈ بنک ، نیشنل بنک ، مسلم کمرشل بنک اور حبیب بنک کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ سر فہرست ہے ۔ ملک بھر کے علما اور سوشل میڈیا صاردی شرعی کورٹ کے فیصلے کے حق میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ بالا بنکوں سے رقوم نکلوانے کی بات کر رہے ہیں جو شرعی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل میں گئے ہیں ۔

ان بنکوں میں حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے نیشنل بنک کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور علمائے کران کا کہنا ہے کہ سودی نظام کے فیصلہ کے خلاف سرکاری بنک کا رٹ میں جانا حکومت کے اپنے کردار کو مشکوک بنا رہا ہے ۔ اسکے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک طرف تو مولانا اسد محمود کی تقریر کو بہت پذیرائی مل رہی ہے اور دوسری جانب انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف بیان بازی ہے کیونکہ جمیعت علمائے اسلام خود حکومتی اتحادی ہے اور مولنا فضل الرحمان کی حمایت کے بغیر حکومت سودی نظام کے خلاف شرعی کورٹ کے فیصلے کو چینلج نہیں کر سکتی ۔

یاد رہے کہ 28 اپریل کو وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کو خلافِ شریعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ پانچ سال میں ملک میں بلا سود معاشی نظام نافذ کرے۔

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ڈاکٹر سید انور کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ بینکوں کے منافع کی تمام اقسام سود کے زمرے میں آتی ہیں اور سود کی تمام اقسام قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔

شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ربا اور سود سے متعلق موجودہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں۔ عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یکم جون سے تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی۔

فیصلے میں شرعی عدالت نے کہا کہ بتایا جائے کہ سودی نظام کے خاتمے کی قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ توقع ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔

فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ سودی نظام کے خاتمے میں وقت لگے گا، دو دہائیوں بعد بھی بلاسود معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی شرعی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان عدالتی فیصلے کا مطالعہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی شرعی عدالت نے درکار وضاحت اور رہنمائی حاصل کی جائے گی۔

گزشتہ روز حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے نیشنل بنک سمیت تین نجی بنکوں نے سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جس کے بعد سیاسی ماحول گرم ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button