بیٹے کے ہاتھوں بہو کا قتل ،ایاز امیر کا ایک روزہ ریمانڈ منظور

( مانیٹرنگ ڈیسک ) اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سینیر صحافی ایاز امیر کے ایک روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی ہے۔ دوران سماعت ایاز امیر کا کہنا تھا کہ بہوسارہ کو یہ بھی بتایا تھا کہ شاہنواز نشے کا عادی ہے۔
اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد کے فارم ہاؤس میں قتل ہونے والی سارہ انعام کے قتل کیس میں نامزد سینئیر صحافی ایاز امیر کو آج بروز اتوار 25 ستمبر کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اسلام آباد پولیس نے ایاز امیر کو بہو کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا ہے۔ مقدمے اب 302 کے ساتھ دفعہ 109 بھی شامل کی گئی ہے، مقدمے میں ایاز امیر کی سابق اہلیہ کو بھی نامزد گیا گیا ہے، تاہم تاحال انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
سماعت اور ریمانڈ
بعد ازاں ایاز امیر کو ڈیوٹی جج ایسٹ زاہد ترمذی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ایاز امیر کے وکیل ایڈووکیٹ زعفران اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران وکیل صفائی نے کہا کہ ایاز امیر کا نام ایف ائی آر میں نامزد نہیں، میرے موکل کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ اس پر پولیس افسران نے کہا کہ ہائی پروفائل کیس ہے، ملزم کو شامل تفتیش کرنا ہے۔ قتل کے واقعے کی اطلاع ایاز امیر نے ہی دی تھی۔
عدالت نے کچھ دیر فیصلہ محفوظ رکھنے کے بعد ایاز امیر کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالتی حکم میں پولیس کو ملزم کا میڈیکل کرانے کی ہدایت اور آئندہ سماعت پر میڈیکل اور تفتیشی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
ایاز امیر کو گزشتہ روز شہزاد ٹاؤن کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
سارہ قتل کیس
خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر کو معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ کی شناخت 37 سالہ سارہ انعام کے نام سے ہوئی جو مبینہ قاتل کی تیسری بیوی تھی اور جمعرات کو ہی دبئی سے اسلام آباد پہنچی تھیں۔
واقعہ شہزاد ٹاؤن میں واقع ایک فارم ہاؤس میں پیش آیا جہاں ملزم اپنی والدہ کے ساتھ رہتا تھا۔
مقتولہ کینڈین شہری اور ملزم کی تیسری بیوی تھی جو بیرون ملک چارٹرڈ فرم میں کام کرتی تھی۔ دونوں کی چند عرصہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ مقتولہ کے دو بھائی اور والد امریکا میں مقیم ہیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کينيڈين نژاد مقتولہ سارہ انعام کے ماتھے اور چہرے پر زخم کے نشان پائے گئے ہیں، جب کہ ان کے ہاتھوں اور بازؤں پر بھی زخم کے نشانات تھے۔
ایف آئی آر کا اندراج
اسلام آباد میں معروف سینیر صحافی ایاز امیر کی بہو کے قتل کا مقدمہ ایس ایچ او تھانہ شہزادہ ٹاؤن کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے۔
پوسٹمارٹم رپورٹ
پولیس کے مطابق ملزم کی نشاندہی پر باتھ روم ٹب میں چھپائی گئی لاش اور صوفے کے نیچے چھپائے گئے آلہ قتل ڈمبل کو برآمد کیا۔
درج کی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کو ملزم کی ماں نے قتل سے متعلق آگاہ کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم کی والدہ کا کہنا تھا کہ ملزم کا اہلیہ سارہ انعام سے جھگڑا ہوا تھا، جس پر ملزم نے اسے ڈمبل مار کر قتل کردیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے گھر میں پولیس کو دیکھ کر خود کو کمرے میں بند کیا، گرفتاری کے وقت ملزم کی شرٹ اور ہاتھوں پر خون کے نشانات تھے۔ ایف آئی آر میں ملزم کا اعترافِ جرم بھی شامل ہے کہ اس نے جھگڑے کے دوران بیوی کو ڈمبل کے وار کر کے قتل کیا۔
درج ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے باتھ ٹب سے مقتولہ کی لاش برآمد کرائی، جس کے سر پر زخم کے نشانات تھے۔ جب کہ آلہ قتل بھی ملزم کے بیڈ روم سے برآمد کرلیا گیا ہے۔ آلہ قتل پر مقتولہ کا خون اور سر کے بال بھی لگے ہوئے تھے۔ 37 سالہ سارہ انعام کی لاش کو ضروری کارروائی کیلئے پمز ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
والدین کا پولیس سے رابطہ
مقتولہ کے والدین نے پاکستانی حکومت اور اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ ملزم شاہنواز کو سخت سزا دی جائے۔
37 سالہ سارہ انعام کے والدین نے ہفتہ 24 ستمبر کے روز اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا۔ قانون نافذ کرنے والے حکام سے گفتگو میں مقتولہ سارہ کے والد نے کہا کہ دو دن میں اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
دوسری جانب ملزم شوہر شاہنواز نے بھی قتل کا اعتراف کرلیا، جب کہ ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد کرلیا گیا ہے، جو اس نے بستر کے نیچے چھپایا ہوا تھا۔
پولیس کو دیئے گئے اپنے ابتدائی بیان میں شاہنواز کا کہنا ہے کہ اس نے غیر ارادی طور پر قتل کیا۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے ملزم کا فون فرانزک کیلئے بھجوا دیا ہے۔
واضح رہے کہ قتل کا مقدمہ جمعہ 23 ستمبر کو اسلام آباد کے تھانے شہزاد ٹاؤن میں درج کیا گیا ہے۔
ایاز امیر کا ردعمل
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق ایاز امیر کے بیٹے شاہ نواز نے اپنی بیوی سارہ کو گھر میں قتل کیا تھا۔ بیٹے کے ہاتھوں بہو کے قتل کے واقعے کے حوالے سے سینیر صحافی ایاز امیر نے کہا تھا کہ ایسا واقعہ کسی کے ساتھ پیش نہ آئے، یہ صدمہ کسی کو اٹھانا نہ پڑے۔