افسر اور دفترتازہ ترینموسم

بلوچستان دلدل میں تبدیل ہو رہا ہے،عالمی سطح پر خظرے کی گھنٹی

بلوچستان کے شہر ڈیرہ مراد جمالی میں سیلابی صورتحال تاحال برقرار ہے۔ علاقے منجو شوری میں ایک خاندان نے گزشتہ کئی روز سے ایک دکان میں پناہ لے رکھی ہے لیکن اب تک ضلعی انتظامیہ نے کوئی مدد نہیں کی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان کے بند توڑ کر سیلابی پانی کا رخ سندھ کی جانب موڑنے کے الزام کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کی پیشکش کردی ہے۔

دوسری جانب چمن مسافر ٹرین دو ہفتے بعد بحال ہوگئی، ٹرین مسافروں کو لے کر کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے چمن کے لیے روانہ ہوگئی۔

بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں انتظامی نااہلی کی ایک اور مثال سامنے آگئی، یونیورسٹی اور ضلعی جیل کے اطراف 18 دن سے موجود سیلابی پانی دلدل کی صورت اختیار کرگیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق جیل میں واقع سپاہیوں کے کوارٹرز بھی پانی میں ڈوب گئے ہیں مگر اس کیچڑ کو صاف کرنے والا کوئی نہیں۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک ماہ

بعد بھی ریلیف آپریشن شروع نہیں ہوسکا، متاثرہ علاقوں میں پینے کے پانی، غذا اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

لوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر حالیہ سیلاب کی تباہی نے اس کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔

یہاں دو ماہ میں تین بار سیلاب آیا ہے اور جس کے پاس جو بچا تھا وہ بہا کر لے گیا۔ یہاں 30 اضلاع اور 92 لاکھ افراد سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں یعنی ان کی فصلیں تباہ ہوئیں، گھر گر گئے اور جمع پونجی بہہ گئی۔

بلوچستان کے سیلاب سے تباہ حال حصوں کا زمینی رابطہ تادم تحریر منقطع ہے۔ یہاں سے مسلسل یہی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ یہاں بعض اضلاع مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے تباہ کن سیلاب نے دنیا بھر کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت پر خطرے کی گھنٹی ہے، ریکارڈ بارشیں صرف غریب ملکوں میں نہیں بلکہ کسی بھی ملک میں تباہی لا سکتی ہیں۔

 ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلاکت خیز سیلابوں اور بارشوں نے عالمی بے انصافی کے احساس کو مزید بڑھا دیا ہے۔

مؤثر اقدامات نہ کیے جانے کے باعث  خواتین اور بچے بیمار ہونے لگے ہیں۔

ادھر واشک سمیت ضلع بھر کے مختلف علاقوں میں بھی کھانے پینے کی چیزوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

پاکستان جیسے ملک کا عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی آلودہ گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دو چار ملکوں میں پاکستان سرِ فہرست ہ

موسمیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے درمیان براہِ راست تعلق ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہوا اور پانی مزید گرم ہوتے ہیں، جس سے پانی کی زیادہ مقدار بخارات میں تبدیل ہوتی ہے۔ گرم ہوا میں بخارات کو سمیٹنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ تب ہی مون سون بارشیں شدت سے برستی ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے محلِ وقوع کی وجہ سے اسے دو موسمیاتی سسٹمز کے اثرات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایک سسٹم شدید گرمی اور خشک سالی پیدا کرتا ہے، جیسا کہ اس سال مارچ میں آنے والی گرمی کی لہر میں دیکھا گیا۔ اور دوسرا سسٹم مون سون بارشیں لے کر آتا ہے۔

سائنسدانوں نے آنے والے برسوں میں مون سون بارشوں میں مزید شدت کی پیشگوئی کی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ خاص طور پر تباہ کن ہوسکتا ہے کیونکہ قطبی علاقوں کے سوا، دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ گرمی بڑھنے سے گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں جیسا کہ اس سال دیکھنے میں آ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button