امریکی ریاست اوہایو میں پولیس کے ہاتھوں سیاح فام نوجوان کے قتل کی ویڈیو جاری

(فرحان مقصود ) امریکی ریاست اوہایو کی پولیس نے اپنے ایک افسر کی جانب سے 20 سالہ سیاہ فام نوجوان کو گولی مار کر قتل کرنے کی ویڈیو جاری کر دی۔
کولمبس، اوہایو پولیس کی جانب سے پولیس افسر کے جسم پر پہنے ہوئے کیمرا کی ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ایک پولیس افسر کی جانب سے اپنے بستر پر موجود 20 سالہ سیاہ فام نوجوان کو گولی ماری گئی۔
ایک نیوز کانفرنس کے دوران پولیس حکام نے میڈیا کو بتایا کہ 20 سالہ نوجوان ڈونوون لیوس، غیر مسلح تھا جب اسے کولمبس ڈویزن کے ایک پولیس افسر کی جانب سے گولی ماری گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس افسر کے پاس ڈومیسٹک وائلنس کے الزام میں لیوس کے گرفتاری کے وارنٹ تھے اور وہ وہاں اسے گرفتار کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق مقتول کے گھر سے کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا، اوہایو پولیس کے بیورو آف انویسٹیگیشن کی جانب سے غیر مسلح سیاہ فام نوجوان کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
جولائی 2022 میں بھی اوہائیو کی پولیس ٹیم نےایک سیاہ فام شخص کو متعدد بار فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا، بعد ازاں اسکا ویڈیو جاری کر دیا گیا ۔ حکام کے کا کہنا تھا کہ پولیس کے خیال میں اس شخص نے پہلے ایک گولی چلائی اور دوبارہ فائرنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ تاہم سیاہ فام نوجوان نہتا اور غیر مسلح ثابت ہوا تھا۔
اکرون کے محکمہ پولیس نے اس حوالے سے متعدد ویڈیو کلپ جاری کی ہیں۔ اس میں 25 سالہ سیاہ فام جے لینڈ واکر کا تعاقب کرنے اور ہلاک کرنے کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو اس بات کا خیال ہے کہ جے لینڈ واکر نے پہلے اپنی گاڑی سے ان پر ایک گولی چلائی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ وہ دوبارہ فائرنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں نے کتنی بار واکر پرگولیاں چلائیں، تاہم پولیس سربراہ اسٹیو مائیلیٹ نے بتایاکہ طبی معائنہ کاروں کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ”مسٹر واکر کے جسم پر 60 سے زیادہ زخم پائے گئے ہیں۔”
ویڈیو جاری ہونے کے بعد مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے اکرون میں مارچ شروع کیا اور شہر کے مرکز میں محکمہ انصاف کے سامنے جمع ہوئے۔ شہری حقوق کی تنظیم ‘نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز’ کے صدر ڈیرک جانسن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ واکر کی موت، ”بہت قریب سے فائرنگ کے ذریعے کیا گیا ایک قتل ہے۔”
شہر کے میئر نے کمیونٹی سے امن اور صبر کی اپیل کرتے ہوئے فائرنگ کو ”دل دہلا دینے والا” قرار دیا۔
واقعہ یوں ہے کہ واکر نے ٹریفک کی ایک معمولی سی خلاف ورزی کی تھی اور اس پر پولیس اہلکاروں نے ان کی سرزنش کرنے کی کوشش کی، تاہم وہ اپنی کار میں فرار ہو گئے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس پر پولیس نے ان کا تعاقب کیا اور کئی منٹ تک پیچھا کرنے کے بعد بالآخر واکر نے اپنی گاڑی سے چھلانگ لگائی اوربھاگنے کی کوشش کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ پولیس افسران کی طرف اپنا رخ کر رہے تھے، جن کا اس وقت خیال یہ تھا کہ وہ مسلح ہیں۔ تاہم وہ اس وقت نہتے تھے اور بعد میں ان کی گاڑی سے ایک بندوق برآمد ہوئی۔
جے لینڈ واکر کی فیملی کے وکیل بوبی ڈیسیلو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پولیس کے اس الزام کے بارے میں ”کافی فکر مند” ہیں کہ واکر نے اپنی کار سے پولیس پر فائرنگ کی تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی اس پرتشدد موت کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔
ڈیسیلو نے کہا، ”وہ اسے بندوق کے ساتھ ایک نقاب پوش عفریت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب وہ بھاگ رہا تھا، تو معقول کیا ہے؟ اسے گولی مارنا؟ نہیں، یہ تو معقول نہیں ہے۔”
ڈی سیلو نے عوام پر زور دیا کہ وہ واکر کے قتل کے خلاف اپنے احتجاج میں پرامن رہیں، اور یہ کہ واکر کے خاندان کی خواہش تھی کہ وہ مزید تشدد سے بچیں۔
ریاست اوہائیو کی تفتیشی ایجنسی ‘بیورو آف کریمنل انویسٹی گیشن’ واکر کی موت کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ہلاکتیں پولیس کی بربریت اور نسلی ناانصافی کی عکاس
امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں سیاہ فام مردوں اور خواتین کی ہلاکت کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ برسوں سے جاری اس سلسلے کا ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 2020 میں منی ایپلس میں جارج فلوئیڈ کے قتل سمیت یہ تمام واقعات نہ صرف نسل پرست پر مبنی ہیں بلکہ بلا جواز بھی ہیں۔
جارج فلوئیڈ کے واقعے نے پولیس کی بربریت اور نسلی ناانصافی کے خلاف عالمی مظاہروں کو بری طرح سے بھڑکا دیا تھا۔