بازار اور کاروبارصارف اور خریدار

پاکستان میں پولٹری سیکٹر اور اسکے صارفین دونوں پریشان

( مائرہ ارجمند) پاکستان میں پولٹری سیکٹر سے وابستہ افراد اور صارفین دونوں شدید مشکلات سے دوچار ہیں ۔ پولٹری کی دو اہم پروڈکٹس برائلر مرغی جسے چکن بھی کہا جاتا ہے اور انڈہ دونوں کی قیمتیں صارف یا پولٹری فارمر کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔

شہر یا گاوں کے ایک عام صارف کی پروٹین کی یومیہ ضرورت کا آمدن سے موازنہ

چکن یا برائلر مرغی کے گوشت کی بات کی جائے تو اسکی قیمت ایک عام پاکستانی کی پہنچ سے باہر ہے۔ لاہور میں مزدور اور محنت کش طبقہ کی یومیہ اجرت ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ہے اور چھوٹے شہروں اور دیہات میں یہ آمدن 600 سو سے 700 روپے یومیہ ہے جبکہ خواتین مزدوروں کی یومیہ آمدن اس سے تقریبا آدھی یعنی 300 سے 400 روپے ہے۔

پاکستان میں بکنے والا فارمی مرغی کا گوشت

پنجاب اور سندھ کے دیہات میں گندم کی کٹائی کے موسم میں کم و بیش ہر خاندان اجتماعی محنت کے نتیجہ میں سال بھر کی گندم جمع کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور کم و بیش ہر خاندان کے پاس چھوٹا ہی سہی لیکن اپنا گھر ہوتا ہے لہذا انہیں کچھ بنیادی سہولتیں میسر ہونے اور مویشی پالنے کے رواج کی وجہ سے یومیہ کم آمدن کیساتھ وہ قریب قریب اسی معاشی سطح تک پہنچ جاتے ہیں جو شہر میں ہزار روپے کے لگ بھگ کمانے ولے کی ہے۔

لیکن شہروں میں مہنگائی زیادہ ہونے اور غریب شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس ذاتی مکان نہ ہونے کی وجہ سے انکے معاشی حالات کئی صورتوں میں دیہات کے مزدور طبقہ سے بھی برے ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں شہر اور گاوں دونوں کے اس غریب ترین طبقات کیلئے متوازن غذا کا حصول ایک چلینج بن جاتا ہے جو کل آبادی کا کم و بیش 50 فیصد ہے، اشیا خورونوش کی روز بروز بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے غذا کا ایک اہم جزو یعنی پروٹین انکی روزانہ کی خوراک سے نفی ہونے لگتا ہے جسکی وجہ سے ہر عمر کے افراد جسمانی کمزوری اور نقاہت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

غریب گھرانوں کا کھلی جگہ پر باورچی خانہ

ماہرین غذا کا کہنا ہے کہ ایک جوان انسان کو اسکے فی کلو وزن کے تناسب میں اتنے ہی گرام پروٹین روزانہ کی بنیاد پر ملنا ضروری ہے اور اسکا سب سے سستا حصول پولٹری یعنی چکن اور انڈہ ہیں۔ جبکہ بچوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کو کمزوری یا غذائی قلت کی صورت میں اس سے دوگنی مقدار تجویز کی جاتی ہے۔

معاشی عدم تحفظ اور غذائی ضرورت

فی کلو چکن جب 400 روپے کے لگ بھگ ہو گا تو ہزار روپے یومیہ آمدن والا خاندان اسکی خرید کی سکت کیسے رکھتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فی کلو کی قیمت جسکا تعین مارکیٹ کمیٹیوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اس میں آلائیشیں، چربی اور ہڈیاں بھی شامل ہوتی ہیں یعنی صارف کو ایک کلو برائلر مرغی کے گوشت کی ادائیگی پر 600 گرام کے لگ بھگ گوشت ہی ملتا ہے جو 6 سے 7 افراد کے ایک گھرانے کی پروٹین کی ضرورت پوری کرتا ہے لیکن گاوں کا 600 اور شہر کا 100 روپیہ یومیہ کمانے والا ایک خاندان روزانہ کی بنیاد پر اپنی آمدن سے 400 روپے کلو ملنے والا چکن خریدنے سے قاصر ہے کیونکہ اسے دیگر ضروریات زندگی کے لئے بھی رقم درکار ہوتی ہے۔

متوسط طبقہ کی خاتون خانہ

مٹن یا بیف جسے پاکستان میں چھوٹا اور بڑا گوشت کہا جاتا ہے اس سے بھی مہنگے ہیں، ہڈی والا بیف 700 روپے جبکہ مٹن 1500 روپے کلو ہے جو متوسط طبقہ کی قوت خرید سے بھی باہر ہو چکا ہے۔ اسکے علاوہ مچھلی اور پینر جیسی چیزیں بھی ایک عام صارف کی پہنچ سے باہر ہیں۔

پولٹری سیکٹر کے حوالے سے لاہور 42 نیوز کا سروے

ان حالات میں صارفین پولٹری سے واپستہ افراد کو کوستے ہیں۔ لاہور 42 نیوز کے ایک سروے میں جب پولٹری سیکٹر کی چین سے جڑے افراد کے منافع اور مسائل کا جائزہ لیا گیا تو علم ہوا کہ ہیچری سے لیکر فارم ، فارم سے سپلائیر اور سپلائیر سے قصاب تک کے اس مربوط نظام میں سب کا روزگار ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔

  • ہیچری مالکان کے مسائل اور تحفظات
پاکستان میں ہیچری کا کاروبار

ہیچری مالکان جو بریڈر مرغیاں پالتے ہیں یا انکا انڈہ خرید کر اپنی ہیچری میں چوزہ نکالتے ہیں انکا کہنا ہے کہ گیس اور بجلی کے بلوں ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں ،جن حضرات کی ہیچریز کرائے کی ہیں انکی عمارتوں کے کرایہ ،ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ سمیت مختلف اخراجات بڑھنے سے انکی لاگت کئی گنازیادہ ہو چکی ہے ۔

  • پولٹری فارمر کا عدم تحفظ اور مسائل

پولٹری فارمر حضرات کا کہنا ہے کہ چند ماہ تک 400 یا 500 تک بھی فروخت ہونے والی مرغی سے انکے ایسے نقصانات کا مدوا ہوتا ہے جو ان پر 150 سو سے 200 روپے کلو تک فروخت کر کے قرض کی صورت میں چڑھے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پولٹری فارمر کاروباری عدم تحفظ کا شکار ہے

اسکے علاوہ فارمر حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرغی کی خوارک چار سال کے عرصہ میں دو گنا قیمت کو پہنچ چکی ہے ۔ پولٹری کی ادویات کی قیمتوں میں دس گنا تک اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں لگ بھگ 7 گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔ فارمز کا موقف ہے کہ ان سے کیوں توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ان حالات میں سستی مرغی فراہم کریں، جب لاگت دوگنا نہیں کم و بیش پانچ گنا بڑھ چکی ہے ۔ اسکے علاوہ کورونا کی وبا نے جن سیکٹرز کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں پولٹری بھی شامل ہے کیونکہ شادیاں اور دیگر تقریبات بند کر دی گئیں جو مرغی کے گوشت کی کھپت کا بڑا سیکٹر تھے ۔ فامرز کا موقف ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ چکن فارمر بہت کما رہا ہے لیکن ہمارے نقصانات اور کاروباری لاگت کا مرغی کی قیمت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

  • سپلائیر حضرات کو درپیش مسائل اور موقف
لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ میں سپلائی کا ایک منظر

چکن سپلائی چین میں تیسرا نمبر سپلائیر کا ہے جو گاڑیوں میں مرغی بھر کے گوشت کے پھٹوں تک پہنچاتا ہے۔ سپلائیرز کا موقف ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے انکو بہت متاثر کیا ہے اور انکی شرح منافع کم ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ دوردراز علاقوں سے چھوٹے بڑے شہروں میں سپلائی کے دوران انہیں اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا جاتا ہے اور حادثات کی صورت میں نقصان انہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان میں انکے کاروبار کو انشورنس جیسی کسی سہولت کا تحفظ نہیں۔

  • گوشت کے پھٹے والا کیا کہتا ہے؟
مرغی کے گوشت کی فروخت

صارف تک گوشت پہنچنے سے پہلے اس سپلائی چین کا سب سے آخری کردار قصاب یا پھٹے والا ہے جنکا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ انکا شرح منافع طے شدہ ہے لیکن جب مرغی کا گوشت مہنگا ہوتا ہے تو انکی سیل کم ہو جاتی ہے چونکہ انکا منافع زیادہ بکری کیساتھ بڑھتا ہے اس لئے صارف کی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ مرغی کی قیمت فروخت کم سے کم ہو ۔

عدم تحفظ ادھر بھی ادھر بھی

صورتحال بہت گنجلک ہے کیونکہ صارف کو سستا پروٹین میسر آنے کی صورت میں فارمر ، سپلائیر اور ہیچری والا نقصان میں جاتے ہیں اور چکن کی قیمت بڑھ جانے سے صارفین کی بڑی تعداد غذائی ضروریات پورا کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔۔

فارمی مرغی، انڈہ

انڈہ بھی پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہے 2022 2021 کے موسم سرما میں انڈے کی قیمت کم رہی اور اسوقت بھی فارمی مرغی کے انڈے کی قیمت ایک عام صارف کے پہنچ میں ہے لیکن انڈہ دینے والی فارمی مرغی پالنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس برس ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

حل کیا ہے؟

پاکستان میں صارفین کے حالات

دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اور کاروباری حضرات کو انکا معاشی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت ان دونوں محاذوں پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے ۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملہ ناسمجھی یا نا اہلی سے زیادہ سنگین ہے کہ حکومت دراصل کسی بھی سیکٹر میں اصلاحات کا ارادہ ہی نہیں رکھتی۔ صوبوں اور مرکز میں وزرا کی فوج ہے جو صرف سیاسی مخالفین کو زیر کرنے اور حکومت کی تعریفوں کے جھوٹے پل باندھنے کے لئے میڈیا پر بیٹھے رہتے ہیں اور اپنی وزارتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پولٹری سمیت اشیا خورونوش کی تیاری سے جڑے تمام سیکٹرز کو سہولیات فراہم کرے اور اسکے بعد ایک موثر پرائس کنٹرول میکانزم کا اجرا کرے تاکہ صارفین غذا جیسی بنیادی ضرورت کی قلت کا شکار نہ ہوں۔

خصوصی تحریر مائرہ ارجمند

مائرہ ارجمند

مائرہ ارجمند گزشتہ 5 برس سے صحافتی دنیا سے وابستہ ہیں۔ صارفین کے حقوق اور معاشی اصلاحات انکے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ لاہور 42 نیوز کی ٹیم کی فعال رکن ہیں ۔ مائرہ ارجمند خبر کو تجزیاتی بنیادوں پر پرکھنے اور اسکے پس پردہ موضوعات کو سمجھنے میں کمال مہارت رکھتی ہیں۔ انکی درج بالا تحریر انکے برس ہا برس کے اس تجربہ کا نچوڑ ہے جو انہوں نے بطور صحافی حاصل کیا ۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button