ورلڈ اپ ڈیٹ

برطانوی وزیر اعظم کا نیٹو میں کردار جاری رکھنے کا اعلان

(مانیٹرنگ ڈیسک )برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے نیٹو میں کردار جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

رشی سونک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ نسلوں تک نیٹو میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین میں جنگ ہو رہی ہے ایسے میں ہمیں گھر میں امن کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔

برطانوی وزیراعظم کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیٹو سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ آج برطانیہ کے دورے پر پہنچ رہےہیں۔

نیٹو کی تاریخ

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اتحاد امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔

جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔

جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔

شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔

1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔

سنہ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹینیگرو جون 2017 میں اس کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔

نیٹو کی تاریخ

نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد ’شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود‘ کو فروغ دے کر اپنے رکن ممالک کی ’آزادی ، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت‘ کرنا ہے۔

نیٹو معاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نیٹو کے ایک رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

عملی طور پر اتحاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ’یورپی رکن ممالک کی سلامتی شمالی امریکہ کے رکن ممالک کی سلامتی سے جدا نہیں ہے۔‘

اس تنظیم نے سوویت یونین اور کمیونزم کو اس سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا تھا۔

لیکن اس کی تخلیق کے بعد سے نیٹو کی سرحدیں ماسکو کے 1000 کلومیٹر قریب ہو گئی ہیں، اور اب یہ تنظیم مشرقی یورپ میں 1989 کی انقلابات اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابق سوویت یونین میں شامل ممالک کو اپنا رکن گنتی ہے۔

اب اگر سویت یونین نہیں ہے تو نیٹو کا وجود کیوں ہے؟

سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مغرب نے ماسکو کی فکر کرنا چھوڑ دی ہے۔

سنہ 2003 میں نیٹو کے ایک اعلیٰ عہدیدار، جیمی شیا نے اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ ’کسی کو اس بات پر یقین نہیں تھا کہ کمیونزم کے اچانک ختم ہونے سے دنیا ایک جنت بن جائے گی، ایک ایسے سنہری دور کی تشکیل جس میں اتحادی مسلح افواج کے بغیر زندہ رہ سکیں گے، یا دفاع کے بغیر زندگی بسر کر سکیں گے۔‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ روس عسکری طور پر طاقتور رہا اور یوگوسلاویا کے خاتمے سے 1990 کی دہائی میں ہی جنگ یورپ میں واپس آ گئی۔

اس کے بعد کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ نیٹو نے اپنا کردار ایک مداخلت پسند تنظیم میں بدل لیا: فوجی کارروائیوں میں بوسنیا اور کوسوو میں سربیا کی افواج کے خلاف فضائی مہم کے علاوہ بحری ناکہ بندی اور امن فوج بھی شامل تھیں۔

2001 میں نیٹو نے پہلی بار یورپ کے باہر اپنی کاروائیاں کیں: اس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان بھیجے گئے اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ اتحادی فوج کی سٹریٹجک کمانڈ سنبھالی۔

نیٹو کمانڈ میں آج بھی افغانستان میں تقریباً 17،000 فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، رہنمائی اور مدد کے مشن پر موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button