کراچی کی 39 یوسیز میں پولیو وائرس کی تصدیق

( شیتل ملک )کراچی کی 39 یوسیز میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔
کراچی کی 39 یوسیز کے سیوریج سے حاصل کیے گئے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے، اتنی بڑی تعداد میں یوسیز میں پولیو وائرس کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیو وائرس بلدیہ ٹاؤن، گڈاپ، ناظم آباد اور کیماڑی کی یوسیز میں پایا گیا ہے۔
شہر میں بچوں کے پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر تمام 39 یوسیز میں ہنگامی بنیادوں پر انسداد پولیومہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں رواں سال پولیو کے 19کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے، اور یہ تمام کیسز خیبرپختون خوا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
1994 سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے مصروفِ عمل ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 339,521 پولیو ورکرز پولیو کے خاتمے کے ان اقدامات میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کو دنیا کے سب سے بڑے نگرانی کے نظام کی خدمات حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ اس پروگرام کو معلومات کے حصول اور تجزیے کا معیاری نیٹ ورک، جدید ترین لیبارٹریز، وبائی امراض کے بہترین ماہرین اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پبلک ہیلتھ کے نمایاں ماہرین کی خدمات بھی حاصل ہیں۔
اس سے قبل 15 ستمبر کو جنوبی خیبرپختونخوا میں پولیو وائرس سے مزید ایک بچے کی معذوری کی تصدیق ہوئی ہے۔
چھ ماہ کے بچے کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ پولیو کیس کی تصدیق پاکستان پولیو لیبارٹری، قومی ادارہ صحت اسلام آباد نے کی ۔
رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 19 ہوگئی ہے، جن میں 2 کیسز لکی مروت، 16 کیسز شمالی وزیرستان اور ایک کیس جنوبی وزیرستان سے رپورٹ ہوا۔
رواں برس جنوبی وزیرستان سے پہلا کیس رپورٹ ہوا ۔ اس سے قبل جنوبی وزیرستان سے جون 2020 میں پولیو کیس رپورٹ ہوا تھا۔
جنوبی خیبرپختونخوا میں پولیو وائرس پر قابو پانا پاکستان پولیو پروگرام کی ترجیح ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت بچوں کو ٹیکوں کے ذریعے پولیوویکسین دی جارہی ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ قابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ ویکسین شدہ بچوں کو صابن دیا جارہا ہےاور ان علاقوں میں وائرس کی نگرانی کا نظام مزید مؤثر بنایا گیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا "حالیہ سیلاب سے بحرانی صورتحال کا سامنا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے سے ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔”
بڑی تعداد میں لوگوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے جس سے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے”۔
وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر فخر عالم نے کہا کہ "پروگرام کے لئے وائرس کا پھیلاؤ تشویش کا باعث ہے۔ رسک کو جتنا ہوسکے کم کرنے کے کے لئے ہم ہیلتھ کیمپس میں بچوں تک ویکسین کی رسائی ممکن بنا رہے ہیں۔
ٹرانزٹ پوائنٹس پر بھی مؤثر ویکسینیشن کے لئے سرگرم عمل ہیں”۔
بارشوں اور سیلاب کے باوجود پروگرام نے اگست میں پولیو مہم جاری رکھی اور جن علاقوں تک رسائی ممکن ہوئی وہاں پر بچوں کی ویکسینیشن کا ہدف حاصل کیا۔
سیلاب کے باعث صوبہ بلوچستان اور سندھ کے 23 اضلاع میں مہم نہیں ہوئی تاہم اگست پولیو مہم میں 33 ملین بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلوانے کا ہدف حاصل کیا۔ اگلی پولیو مہم اکتوبر میں ہوگی۔
پولیو سے پانچ سال تک کے عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔اس بیماری سے بچے عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
اس موذی مرض سے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوا کر چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو قطرے پلوا کر اس موذی وائرس کو پھیلنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
بار بار پولیو قطرے پلوانے سے دنیا کے تمام ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں۔