تھانہ کچہریریاست اور سیاست

توہین عدالت کی سماعت،عمران خان کے وکلا کو جواب دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت

( سفیان سعید خان ) خاتون ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی ،عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہو گئی، عمران خان کمرہ عدالت میں موجود ہیں،اسلام آباد پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ سماعت کر رہے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بینچ میں شامل ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے ، عام آدمی ستر سال میں بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کر سکتا، ضلعی عدالت عام ادمی کی عدالت ہے، عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا۔

جس حالت میں ماتحت عدلیہ کام کر رہی ہے انکا اعتماد بڑھانے کیلئے اس عدالت نے بہت کام کیا، اس عدالت کو توقع تھی کہ آپ اس عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وہاں سے ہو کر آتے، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتی ،

جبری گمشدگیاں بد ترین ٹارچر ہے بلوچ طلبہ کے ساتھ جو ہوا وہ بھی ٹارچر ہے، تین سال سے ہم ان معاملہ کو وفاقی حکومت کو بھیجوا رہے ہیں لیکن ٹارچر کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، آپ کا جواب اس بات کا عکاس ہے کہ جو ہوا اس کا آپ کو احساس تک نہیں، آپ کے موکل کو احساس نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے،

کاش اپنے دور حکومت میں اس ٹارچر کے مسئلے کو اس جذبے سے اٹھاتے، اسد طور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں، اگر تب یہ مسئلہ سنجیدگی سے دیکھا گیا ہوتا تو آج نہ ٹارچر کا مسئلہ ہوتا نہ بلوچ طلبہ کا۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ اس عدالت کے معاون ہے خود کو کسی کا وکیل نہ سمجھیں، عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟

وکیل نے کہا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس نے کیس ریمانڈ بیک کیا تھا، کیا عمران خان کے اس وقت دیے گئے بیان کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟

یہ عدالت تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے فیصلوں پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں، اس عدالت کو رات 12بجے کھلنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، ہم تو ہمیشہ سے ہی انصاف کی فراہمی کے لیے موجود تھے ، یہ وہ عدالت جو صرف قانون پر چلتی ہے اس کے تمام ججز غیر جانبدار ہیں، ماتحت عدلیہ کے ججز کوئی ایکس اور وائے نہیں، اس عدالت نے آرڈینس کالعدم قرار دیا اگر آج وہ ہوتا تو گرفتاریاں بھی ہوتیں ضمانت بھی نا ہوتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈرز کی اس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں، یہ عدالت کیوں بارہ بجے کھلی ؟ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے، لیکن یہ عدالت کمزور کے لیے بھی اور چھٹی کے روز بھی 24 گھنٹے کھلی رہی ہے ،

انہوں نے بڑے اچھے انداز میں گلہ کیا کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو ایڈریس کرتے ، سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کوئی influence نہیں کر سکتا،

آج موقع ہے تو آج بتا دیتے ہیں کہ عدالت رات کو کیوں کھلی تھی، اس عدالت کے ذہن میں تھا کہ جو 12 اکتوبر کو ہوا وہ دوبارہ نہ ہو۔

میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کر وائرل کیا گیا، مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی۔

طلال چوہدری کیس ، دانیال چوہدری کیس اور ہاشمی کا کیس بھی عدالت کے سامنے ہے، آزادی رائے کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے رتبہ کے مطابق نہیں۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں، عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔

عدالت کے باہر عمران خان نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راستے بند کرانے کی سمجھ نہیں آئی اتنا خوف کیا ہے،ہم نے ورکرز کو بھی کہا تھا کہ کسی نے بھی نہیں آنا ۔

صحافی نے سوال کیا کہ میں بڑا خوف ناک ہوں کہیں اس وجہ سے تو انتظامات نہیں کیے گئے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ صحافی تنگ کر رہا تھا اس لیے ایسا کہا تھا، ایک اور صحافی نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج بہت ڈری ہوئی ہیں ، جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے قانونی کارروائی کا کہا تھا وہ ایکشن لیا بھی گیا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی، ذرائع کے مطابق عمران خان کا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتے، الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہوں۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی، ذرائع کے مطابق عمران خان کا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتے، الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہوں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button