پسند کی شادی پر جوڑا قتل،کتے کے کاٹنے سے خاتون ہلاک،کوئٹہ میں 8 منشیات فروش ہلاک،بلوچ طلبا کے حوالے سے بڑی خبر

( جہانزیب احمد خان ٰٰٰ) اسلام آباد میں پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق مقتول نثار اور اس کی بیوی کو رات گئے نامعلوم افراد نے گولیاں مارکرقتل کیا، قتل کا واقعہ تھانہ سنگجانی کے علاقے ڈھوک کشمیریاں میں پیش آیا۔
پولیس کا بتانا ہے کہ مقتولین کا تعلق کوہستان سے تھا جنہوں نے کچھ عرصہ قبل پسند کی شادی کی تھی۔
پولیس حکام کے مطابق شبہ ہے کہ دونوں کو غیرت کے نام پرقتل کیا گیا جس کی تفتیش جاری ہے، لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کردی جائیں گی۔
گوجرانوالہ میں کتے کے کاٹنے سے خاتون ہلاک
پولیس کے مطابق واقعہ گوجرانوالہ کے علاقے احمد نگر میں پیش آیا جہاں آوارہ کتے نے خاتون کو کاٹ لیا۔
پولیس کے مطابق خاتون کھیتوں میں کام کر رہی تھی کہ اس دوران کتے نے حملہ کر دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی، خاتون کو فوری طور پر طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی تاہم جسم میں زہر پھیلنے کے باعث خاتون جانبر نہ ہو سکی۔
نجاب پولیس اور پراسیکیوشن کی کارکردگی بہتر نہ ہونے کے باعث لاہور ہائیکورٹ نے 2تھانیدار سمیت سزائے موت کے 5قیدیوں کو بری کر دیا ہے ۔
نجاب پولیس کے انسپکٹر اور اے ایس آئی پر الزام تھا کہ انہوں نے ملزم اللہ رکھا کو دوران حراست تشدد کر کے قتل کیا تھا جس پر سیشن کورٹ لاہور نے دونوں پولیس افسران کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی ، جبکہ دوسرے کیس میں3 ملزمان محمد حسن شہزاد ، نصر اللہ اور امیر نواز کو بری کیا گیا ہے، تینوں ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2بہنوں کو قتل کیا ہے ، لاہور ہائیکورٹ نے دونوں کیسز کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچوں ملزمان کو 5سال بعد بری کر دیا ہے ۔
کوئٹہ میں مبینہ منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن میں 8 منشیات فروش ہلاک
کوئٹہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر کے وسط میں واقع سٹی نالہ میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ آپریشن کے دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 8 منشیات فروش مارے گئے۔
پولیس کے مطابق سٹی نالہ میں قائم کئی عارضی اڈے مسمار کر دیئے گئے۔ منشیات فروشوں کے اڈے سے اسلحہ اور منشیات بھی برآمد کی گئیں۔ لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج بروز بدھ 7 ستمبر کو بلوچ طلبا ہراسانی کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر وزارت انسانی حقوق کی نمائندہ ایمان مزاری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آج اس سے بھی زیادہ کوئی اور اہم معاملہ ہے؟ ایک صوبے کے طلبا شکایت لائے ہیں کہ ہراساں کیا جا رہا ہے، طلبا کہتے ہیں اپنے صوبے جائیں تو غائب ہو جاتے ہیں، جس پر ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت نے 30سے زائد بلوچ طلبا کے معاملے پر خط کا جواب نہیں دیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بلوچ طلبا کے معاملے پر کمیشن سربراہ چیئرمین سینیٹ سے بات کروں گا۔ بلوچ طلبا ہراسانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت ان بچوں کے پاس گئی ہے، 17 سالہ فیروز بلوچ بھی لاپتا ہے، یہ سب کون کررہا ہے۔ یہ ٹیسٹ کیس تھا سب جماعتوں کے لوگوں پر مشتمل کمیشن بنایا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی لیڈر نے چیئرمین سینیٹ کو کمیشن اجلاس بلانے کا کہا؟ کیا کسی سیاسی لیڈر نے اس مسئلے پر جلسے میں بات کی؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے۔ طلبا یہ احساس لیکر جائیں گے کہ وہ ملک کے اہم ترین شہری ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو بلوچ طلبا پر قائم کمیشن کے ممبران سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔ اس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بلوچ طلبا کا معاملہ تاحال حل نہ ہونے کا ذمہ دار سابق حکومت کو ٹھہرایا۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نہ پارلیمنٹ میں آئے نہ انہوں نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی۔ اگر وہ کوشش کرتے تو یہ معاملہ حل ہوسکتا تھا۔ اب عدالت نے یہ بوجھ ہم پر ڈالا ہے تو ہم اس ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیاسی جماعتوں نے بلوچ طلبا کو ترجیح بنایا ہوتا تو وہ آج یہاں نہ آتے، اگر بلوچ طلبہ کسی کی ترجیح ہوتے تو سیاسی جلسوں کے دوران اُن کے مسائل پر بات کی جاتی۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ کمیشن کے ذریعے طلبہ کو یقین دلائیں کہ وہ اہم ہیں، بلوچ طلبا کو اس عدالت سے مایوس واپس نہیں جانے دیں گے۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دوران کسی بلوچ طالب علم کو شکایت ہو تو اٹارنی جنرل سے رابطہ کرے۔