افسر اور دفترتازہ ترینتھانہ کچہریریاست اور سیاست

کراچی میں دہشت گردوں کیساتھ مقابلے میں 4 پولیس اہلکار شہید، کیا دہشت گروں کو بیرونی مدد حاصل ہے؟

( شیتل ملک )کراچی کے علاقے تیسر ٹاؤن کے قریب سی ٹی ڈی اور دہشتگردوں کے درمیان مقابلہ ہوا، فائرنگ سے 4 پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔

سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں 2 دہشتگرد بھی شدید زخمی ہوئے ہیں، زخمی اہلکاروں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی کالعدم تنظیم داعش اور ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی موجودگی پر کی گئی۔

کراچی میں دہشت گردی کی نئی لہر اور سیکیورٹی اداروں کو درپیش چلینجز

رواں برس اپریل کے آخر میں کراچی میں رواں سال کی دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات ہوئی جب جامعہ کراچی میں خود کش حملے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئےتھے۔ یہ چینی باشندے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان اور ثقافت کی تعلیم و تدریس میں مصروف تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی۔
رواں برس مئی کے دوران باکستان کے معاشی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک ہفتے کے دوران دو بم دھماکوں کے بعد سیکیورٹی سے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جانے لگے۔

سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

دہشت گردی کی کارروائیوں پر سیکیورٹی تجزیہ کار اسے ایک جانب سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی سے تعبیر کیا تو دوسری جانب صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے گئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں سیف سٹی منصوبہ کا تصور پیش ہوئے ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے کہ لیکن تاحال اس پرکام شروع نہیں ہوسکا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی اس منصوبے میں تاخیر کا اعتراف خود کرچکے ہیں۔ منصوبے کے تحت 10 ہزار نئے کیمرے دو ہزار مقامات پر تین مراحل میں نصب کیے جانے ہیں۔

کنسلٹنٹ کے مطابق منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 29 ارب روپے کے قریب ہے۔ پہلے مرحلے میں 3000 نئے کیمروں کی تنصیب کی منظوری دی جاچکی ہے جس کی لاگت کا تخمینہ چار ارب روپے لگایا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے سیف سٹی اتھارٹی کو ایک سال کے اندر پہلا مرحلہ مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ سندھ پولیس کی ہزاروں خالی آسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی گئیں اور شہر میں چلنے والے 40 لاکھ کے قریب موٹر سائیکلوں پر ٹریکرز کی تنصیب کا منصوبہ بھی التواء کا شکار ہے۔ ان منصوبوں میں تاخیر کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی کارروائیوں پر قابو پانے میں رکاوٹ قرار دیا جارہا ہے۔

بیرونی عناصر اور کراچی میں دہشت گردی

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے مختلف سیکیورٹی تجزیہ کاروں کی ایک تجزیاتی رپورٹ مئی 2022 میں چھاپی جن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں موجود دہشت گرد عناصر کو کھُلی آزادی مل چکی ہے اور وہاں برسر اقتدار طالبان حکومت اب تک ان پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار اکرام سہگل کا خیال ہے کہ ایسے گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی فعال نظر آرہے ہیں جہاں فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر کئی بڑے حملے کئے جاچکے ہیں جن میں بڑا جانی نقصان ہوچکا ہے۔ فروری میں پنجگور اور نوشکی میں قائم فرنٹئیر کورکے ہیڈ کوارٹر پر مسلح حملوں میں فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

اکرام سہگل کے خیال میں اسی طرح اب یہ گروہ کراچی میں بھی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان اور ایران دونوں ممالک کی سرزمین سے مدد مل رہی ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مقامی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرکے بہ آسانی یہ کارروائیاں کررہے ہیں۔

تاہم ایران کی حکومت اور افغانستان میں برسرا قتدار طالبان حکومت کئی بار پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے گروہوں کی کسی مدد کی تردید کرتے آئے ہیں۔

بلوچستان میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملوں کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جس میں دہشت گردی کے واقعات کو دونوں ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش قرار دیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button