دلیپ کمار کی پہلی برسی: یوسف خان سے دلیپ کمار تک کا سفر

(شیتل ملک ) بھارتی فلم نگر کے شہنشاہ اصل نام یوسف خان تھا مگر دینا انہیں دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے، انکی اداکاری بے مثل رہی لیکن مزے کی بات ہے کہ انہیں اپنے اس ہنر کا خود اندازہ تھا نہ شوق اور نہ ہی کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ دلیپ کمار کے نام سے جانے جائیں گے۔
یوسف خان کے والد کا نام محمد سرور خان تھا اور وہ پھولوں کے بیوپاری تھے۔
والد سے ہوئی معمولی ناراضگی نے یوسف خان کو دلیپ کمار بنا دیا ، قصہ یوں ہے کہ نوجوان یوسف خان چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر گھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے چل نکلا اور پونے آکر برطانوی فوج کی کینٹین میں چائے والا بن گیا۔
یوسف خان کےبنائے سینڈوچ انگریز فوجی بہت پسند کرتے تھے۔ مگر انکے اندر ایک کرانتی کاری یا انقلابی بھی چھپا تھا جوان خون تھا اور جنگ آزادی کی حمایت میں نعرہ لگانے پر انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑی ۔
جیل سے واپسی ہوئی تو اب انگریزوں کی کینٹین پر کام کی اجازت نہیں تھی یہ تفصیلات انہوں نے اپنی
سوانح عمری ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘میں تحریر کیں۔
اس واقعے کے بعد دلیپ کمار ممبئی واپس آ گئے اور والد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔ انھوں نے تکیوں کی فروخت کا کام بھی شروع کیا جو کامیاب نہیں ہو سکا۔
ایک بار ان کے والد نے نینیتال جا کر سیب کا باغ خریدنے کا کام انکے ذمہ لگایا تو یوسف خان ایک روپے بیانہ دے کر معاہدہ کر آئے۔ انھیں اس کے لیے والد صاحب سے خوب شاباش ملی۔
ایک روز کاروباری دورہ پر وہ دادر میں تھے جہاں وہ برطانوی فوج کو لکڑی کے پلنگ سپلائی کرنے آئے تھے تو چرچ گیٹ سٹیشن پر انہیں ایک دوست ماہر نفسیات ڈاکٹر مسانی مل گئے۔
مسانی ’بامبے ٹاکیز‘ کی مالکن اور اداکارہ دیویکا رانی سے ملنے جا رہے تھے۔ انھوں نے یوسف خان سے کہا چلو، کیا پتا تمہیں وہاں کوئی کام مل جائے۔ پہلے تو یوسف نے منع کر دیا۔ لیکن کسی فلمی سٹوڈیو کو پہلی بار دیکھنے کے شوق نے انہیں ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا ۔
جب وہ لوگ دیویکا رانی کے کیبن میں پہنچے تو وہ انھیں بہت باوقار خاتون لگیں۔ ڈاکٹر مسانی نے دلیپ کمار کا تعارف کراواتے ہوئے دیویکا رانی سے ان کے لیے کام کی بات کی۔
دیویکا رانی نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اردو زبان آتی ہے؟ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، ڈاکٹر مسانی نے انھیں یوسف خان کے خاندان کے پشاور سے دلی پہنچنے اور پھلوں کے کاروبار کے بارے میں سب کچھ بتا ڈالا۔
اس کے بعد دیویکا رانی نے یوسف سے ہوچھا کہ کیا وہ اداکار بننا چاہیں گے۔ اس سوال کے ساتھ ہی انھوں نے یوسف کو 1250 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کر دی۔ ڈاکٹر مسانی نے اشارہ کیا کہ وہ اسے قبول کر لیں۔
یوسف خان نے دیویکا رانی کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ فن ادکاری سے بلکل واقف نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کچھ سمجھ بوجھ ہے اس کام کی۔ ْ ’تم پھلوں کے کاروبار کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟‘ دیویکا رانی نے ان سے پوچھا ۔ جواب میں یوسف خان نے کہا ’جی سیکھ رہا ہوں۔‘
دیویکا رانیب ولیں ’تم پھلوں کے کاروبار اور ان کی کاشت کے بارے میں سیکھ رہے ہو تو فلم میکنگ اور ایکٹنگ بھی سیکھ لو گے۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا ’مجھے ایک نوجوان، خوش شکل اور پڑھے لکھے اداکار کی ضرورت ہے۔ مجھے تم میں ایک اچھا اداکار بننے کی قابلیت نظر آ رہی ہے۔‘
بامبے ٹاکیز میں انھیں اداکار ششی دھر مکھرجی اور اشوک کمار کے علاوہ دیگر مشہور اداکاروں کو دیکھ کر اداکاری کی باریکیاں سیکھنے کو ملیں۔ انھیں ہر روز دس بجے صبح سے شام چھ بجے تک سٹوڈیو میں موجود ہونا ہوتا تھا۔
ایک روز جب وہ سٹوڈیو پہنچے تو پیغام ملا کہ دیویکا رانی نے انھیں اپنے دفتر میں بلایا ہے۔
دلیپ کمار نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے ’انھوں نے اپنی شاندار انگریزی میں کہا، یوسف میں تمہیں ایکٹر کے طور پر جلد از جلد لانچ کرنا چاہتی ہوں۔ ایسے میں خیال برا نہیں ہے کہ تمہارا ایک سکرین نیم (فلمی نام) ہو۔‘
ایسا نام جس سے دنیا تمہیں پہچانے گی اور لوگ تمہاری رومانی امیج کو اس سے جوڑ کر دیکھیں گے۔ میرے خیال میں دلیپ کمار ایک اچھا نام ہے۔ جب میں تمہارے نام کے بارے میں سوچ رہی تھی تو یہ نام اچانک میرے ذہن میں آیا۔ تمہیں یہ نام کیسا لگ رہا ہے؟‘
دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ یہ سن کر ان کی بولتی بند ہو گئی۔ وہ نئی شناخت کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ پھر بھی انھوں نے دیویکا رانی سے کہا کہ یہ نام تو بہت اچھا ہے لیکن کیا نام بدلنا واقعی ضروری ہے؟
دیویکا رانی نے دلیپ کمار سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا عقلمندی ہو گی۔ انھوں نے کہا ’میں کافی سوچ سمجھ کر اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ تمہارا سکرین نیم (فلمی نام) ہونا چاہیے۔‘
دلیپ کمار نے یہ بھی لکھا ہے کہ دیویکا رانی نے ان سے کہا کہ وہ فلموں میں ان کا ایک طویل اور کامیاب کریئر تصور کر رہی ہیں۔ ’ایسے میں سکرین کے لیے نام رکھنا اچھا ہو گا اور اس سے سیکولر اپیل بھی ہو گی۔‘