کیا دریا کو آلودہ کرنے پرادکارہ ریشم کو واقعی معاملہ کی سنگینی کا اندازہ نہیں ؟

( اسیس مہتاب ) داکارہ ریشم نے دریائے راوی میں تھیلیاں پھینکنے کی غلطی کا اعتراف کرکے معذرت کرلی۔
قبل ازیں ان کا کہنا تھا کہ ہم انسان ہیں اور غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں، اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ لوگ اتنی تنقید کر رہے ہیں، انہیں کسی کی تنقید سے فرق نہیں پڑتا۔
کچھ دن قبل ریشم نے دریا میں مچھلیوں کے لیے خوراک پھینکنے کے ساتھ ساتھ تھیلیاں بھی پھینک دی تھیں۔
واضح رہے کہ دریا میں تھیلیاں پھینکنے پر سوشل میڈیا میں عوام نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں دیکھا گیا کہ بظاہر اداکارہ ریشم ایک پُل پر اپنی گاڑی سے نیچے اتر کر پلاسٹک بیگز اور پیکنگ گوشت کے ٹکڑے اور پھر ڈبل روٹی نکال کر دریا میں مچھلیوں کے لیے پھینک رہی ہیں۔
تاہم ساتھ ہی گوشت اور ڈبل روٹی سے بھری پلاسٹک پیکنگز ہونے پر اداکارہ کو انہیں بھی دریا میں پھینکتے ہوئے دیکھا گیا۔
جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہوئی صارفین نے ریشم کو ماحولیاتی اور آبی آلودگی کے نقصانات سے آگاہ نہ ہونے پر آڑے ہاتھوں لیا۔
ایک صارف نے لکھاکہ ‘ان کا اعتماد سے پلاسٹک اس طرح پھینکنا ظاہر کرتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نقصانات کا ان کو کوئی اندازہ نہیں۔یہ وہ عمومی رویہ ہےجس کا خمیازہ ہماری زمین بھگت رہی ہے’۔
ان کا اعتماد سے پلاسٹک اس طرح پھینکنا ظاہر کرتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نقصانات کا ان کو کوئی اندازہ نہیں۔یہ وہ عمومی رویہ ہےجس کا خمیازہ ہماری زمین بھگت رہی ہے اور ہمیں اس کا نہ احساس ہے نہ دکھ۔افسوس!! pic.twitter.com/xhGPC8rMEi
— Asma Azam (@AsmaAzam71) September 12, 2022
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی آبی حیات کی بقا کے لیے باعث خطرہ بن گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک جال چونکہ چار سو سے چار سو پچاس سال تک حل پزیر نہیں ہوتے ہیں، گرمی اور نمی کی وجہ سے یہ چھوٹے چھوٹے ذرات میں بدل جاتے ہیں اور پھر سمندر میں مکس ہوتے ہیں یہ ذرات مائیکرو انیمل کے موت کے باعث بن جاتے ہیں جنکی وجہ سے سمندر کی ایکوسسٹم قائم و دائم ہے۔حالانکہ بلوچستان حکومت کی جانب سے پلاسٹک کے جالوں کے استعمال پر پابندی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات ڈپارٹمنٹ بلوچستان ولی خلجی نے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ ساحلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کو اپرول دینے سے پہلےہم انڈسٹریل کو پلاسٹک ڈیمپنگ سمندر میں نہ کرنے کے لئے سختی سے روکتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ فشریز ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ملکر پلاسٹک جالوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ولی خلجی نے پلاسٹک جالوں کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک جالوں کی استعمال کی وجہ سے آبی حیات انجری کا شکار ہوتے ہیں۔ انکے مطابق پلاسٹک کے جال ٹوٹ کر ذرات میں بدل جاتے ہیں جنہیں مچھلیاں اور سمندری مخلوقات نگل جاتی ہیں، جو کہ آبی حیات کے لئے خطرے کی باعث ہے۔
بلوچستان کے تین ساحلی خطے جیوانی دران، اورماڑہ تاک اور اسٹولہ جزیرہ پسنی جہاں سبز کچھوے افزائش نسل کے لئے آتی ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ علاقے سبز کچھوؤں کی عارضی مسکن گاہ ہیں۔ سبز کچھوؤں کی مرغوب غذا چونکہ جیلی فش ہے اور وہ سمندر میں تیرتے ہوئے پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں جس کی وجہ سے انکی موت واقع ہوتی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور مقامی ذرائع سے اکٹھا کرنےوالے معلومات کے مطابق 2020میں گوادر کے ساحلی علاقوں میں پچاس کے قریب کچھوؤں کے خول برآمد ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کی اموات کی وجہ پلاسٹک جال بتائے جاتے ہیں۔
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر،واٹر اور میرین سائنسز اوتھل کے میرین سائنس کے طالب علم نصیر لعل کے مطابق پلاسٹک جال دوسرے اقسام کے جالوں سے اس لئے خطرناک ہے کہ ہر انواع و اقسام کی مچھلیوں کو بیک وقت شکار کرتا ہے جبکہ دوسرے جال مخصوص مچھلیوں کے شکار کے لئے ہوتے ہیں،انکے مطابق پلاسٹک جالوں کی وجہ سے اوورفشنگ بڑھ رہا ہے اور جسکی وجہ سے سمندری پیدوار میں کمی آرہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پلاسٹک سے بنے مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے سمندری درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ نصیر لعل نے مزید بتایا کہ پلاسٹک جال حل پزیر نہ ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی طور پر سمندر کی تہہ میں موجود رہتے ہیں جسکی وجہ سے سمندری ماحول میں خلل پڑتی ہے اور مچھلیاں اور دیگر سمندری مخلوقات یہاں سے نقل مکانی کرتی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر شعیب کیانی کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کا درجہ حرارت بڑھنے اور تبدیل ہونے سے مچھلیوں کی پیدوار متاثر ہورہی ہے۔ انکے مطابق مائیکرو ہلاسٹک سے فشریرز پروڈکشن کس حد تک متاثر ہورہی ہے، اس حوالے سے تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے مستند ڈیٹا موجود نہیں البتہ دنیا کے لیڈنگ مارکیٹوں میں ہمارے مچھلیوں پر پابندی ہے۔ انکے مطابق ڈیٹا اور کوالٹی ٹیسٹنگ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یورپ کے مارکیٹیوں تک ہماری رسائی نہ ہے۔ جس کی وجہ سے ہم جنوبی ایشائی ممالک کو اونے پونے داموں مچھلیاں فروخت کرنے ہر مجبور ہیں۔
Fisheries resources appraisal in Pakistan (FRAP) کے ایک پانچ سالہ تحقیقی پروجیکٹ کے رپورٹ کے مطابق سمندر سے مچھلیوں کا اسٹاک چالیس سے ستر فیصد ختم ہوچکا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے بلوچستان کے سمندرپر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔تہران یونیورسٹی کے ایک تحقیق کے مطابق ہر سال سمندر کا لیول چھ ملی میٹر بڑھ رہا ہے ،اگر یہ اسی طرح بڑھتا رہا تو2050 تک کئی ساحلی علاقے زیر آب آئیں گے۔ شعیب کیانی کے مطابق پلاسٹک جال اور دیگر پلاسٹک مصنوعات کے خاتمے کےلئے ایک جامع پلان بناکر اس پر من و عن عمل کرنا ہوگا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے جالوں پر سرکاری سطح پر پابندی ضرور ہے مگر اس پر بہت کم عمل ہورہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول دشمن مصنوعات پر مکمل پابندی لگا کر اس پر عمل کیا جائے۔