ملک میں بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ کو پہنچ گیا، بجلی مزید مہنگی ہو گی

( مائرہ ارجمند) ملک میں بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار 944 میگاواٹ ہوگیا ہے۔
پاورڈویژن کےمطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 23 ہزار 556 میگاواٹ اور طلب 29 ہزار 500 میگاواٹ ہے۔
شارٹ فال کے باعث مختلف علاقوں میں 8 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ پانی سے 7 ہزار 520 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے، سرکاری تھرمل پلانٹس 970 میگاواٹ اورنجی پاور پلانٹس 10 ہزار 950 میگا واٹ بجلی دے رہے ہیں۔
اس وقت جوہری ایندھن سے3 ہزار 100 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
توانائی کے شعبے کے ماہر فرحان محمود نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار مہنگی ہوئی اور اپریل اور مئی کے مہینوں کی فیول کاسٹ کو جولائی کے مہینے میں وصول کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
فرحان محمود نے بتایا کہ گزشتہ چند مہینوں میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی تھی کیونکہ ڈیموں میں پانی کم تھا اس لیے درآمدی ایندھن پر زیادہ انحصار کرنا پڑا، جو پچاس سے ساٹھ فیصد بجلی کوئلے، گیس اور فرنس آئل سے بنانا پڑی جو بیرون ملک مہنگی ہونے کی وجہ سے پاکستان کو مہنگی پڑی۔
اس کے ساتھ روپے کی قیمت میں کمی کی وجہ سے اس کی لاگت مزید بڑھ گئی تھی اور اس سارے کا اثر فیول ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں بجلی کے بلوں میں نظر آیا۔
کومت کی جانب سے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کو بھی جولائی کے بلوں میں اضافے کی وجہ قرار دیا۔
انھوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پیٹرول و ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بجلی پر بھی پانچ روپے فی یونٹ سبسڈی کا اعلان کیا تھا تاہم نئی حکومت آنے کے بعد اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط کے تحت بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا بھی خاتمہ کیا گیا جس کی وجہ سے بیس ٹیرف میں اضافہ ہوا اور جولائی کے بلوں میں سبسڈی کے خاتمے کا بعد کا اثر نظر آیا۔
مارچ میں سابقہ حکومت کی جانب سے بجلی پر سبسڈی کے بعد بیس ٹیرف 16 روپے فی یونٹ سے گر کر گیارہ روپے فی یونٹ ہو گیا تھا۔
فرحان محمود نے بتایا کہ سابقہ حکومت نے بجلی کے بنیادی نرخ کو منجمد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت بجلی کے بلوں میں کچھ کمی دیکھی گئی تھی تاہم موجودہ حکومت نے جب سبسڈی کا خاتمہ کیا تو اس کا ایک واضح اثر بھی بجلی کے بل میں نظر آیا اور جولائی کے بل میں کم یونٹ کے استعمال کے باوجود زیادہ ادائیگی کرنا پڑی۔
دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کے جولائی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارچ اور سبسڈی کے خاتمے میں آنے والے اضافے کے ساتھ تین ہزار روپے ریٹیلر ٹیکس بھی لگ کر آیا جس کی وجہ سے انھیں زیادہ بل ادا کرنا پڑا۔
خلیق کیانی نے بتایا کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ریٹیلر ٹیکس کا اعلان کیا گیا تھا جو اب جولائی کے مہینے میں لگ کر آیا جس کی وجہ سے کمرشل میٹروں پر بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت 36000 روپے سالانہ اور تین ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ریٹیل سطح پر فل اینڈ فائنل ٹیکس لینا چاہتی ہے جس کی شروعات جولائی کے بل میں کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان می تاجر تنظمیوں کی جانب سے اس ٹیکس کے نفاذ اور اسے
بجلی کے بل کے ساتھ وصول کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے اور حکومت سے اس کو واپس لینے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے بجلی کے بلوں میں اس ٹیکس کو واپس لینے کا کہا ہے۔
پاکستان میں جولائی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کے بعد آنے والے مہینوں میں بجلی کے بل میں مزید اضافے پر خلیق کیانی نے بتایا کہ جون کے مہینے کا فیول ایڈجسٹمنٹ ابھی وصول کرنا باقی ہے جو آنے والے مہینے میں ہو گا تاہم اس کے ساتھ اب بجلی کے بیس ٹیرف یعنی بنیادی نرخ میں بھی اضافہ اگلے چند مہینوں میں بلوں میں اضافی رقم کی صورت میں نکلے گا۔
انھوں نے بتایا کہ کہ 26 جولائی سے 3.50 روپے فی یونٹ بیس ٹیرف کا اطلا ق ہو گیا ہے جو اگست کے بلوں میں نظر آئے گا اسی طرح 3.50 روپے فی یونٹ کے ایک اور اضافے کا اطلاق اگست کے مہینے میں ہو گا جو ستمبر کے بلوں میں نظر آئے گا۔
پھر ایک اور اضافہ ستمبر، اکتوبر میں ہو گا جس سے ملک میں بیس ٹیرف میں اضافہ ہو گا اور یہ بجلی کے بل میں اضافے کا سبب بنے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ 17 فیصد کے حساب سے لگنے والا سیلز ٹیکس بھی نئے اضافی ٹیرف کی وجہ سے صارفین کے لیے بجلی کو مہنگا کرے گا۔
فرحان محمود نے بتایا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کا اثر اکتوبر تک نظر آئے گا جب صارفین سے فیول کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ بل وصول کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ کیونکہ اب بارشیں ہو رہی ہیں اور پانی سے بجلی زیادہ پیدا ہو گی اس لیے بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ بڑھنے سے بجلی کی پیداوار کی مجموعی لاگت میں تھوڑی سی کمی اکتوبر کے بعد ہو گی تاہم حکومت کی جانب سے بیس ٹیرف کو مرحلہ وار بڑھانے سے بجلی کے بلوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔
خلیق کیانی نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس، کوئلے اور فرنس آئل کی زیادہ قیمت کی وجہ سے حکومت کو بجلی کی پیداوار کی بڑھی ہوئی لاگت لوگوں کو منتقل کرنی پڑ رہی ہے تاہم اس سے بجلی کی چوری بھی بڑھے گی۔
انھوں نے کہا کہ اگر بجلی کی قیمت میں یوں ہی اضافہ جاری رہا تو اندازوں کے مطابق پاکستان کی مزید بیس سے پچیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔