تازہ ترینورلڈ اپ ڈیٹ

کابل کی مسجد وزیرمحمد اکبر خان کے پاس دھماکہ

(مانیٹرنگ ڈیسک ) افغان دارالحکومت کابل میں وزیر محمد اکبر خان مسجد کے قریب دھماکے کی آواز سنی گئی ہے، دھماکے میں ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

افغان میڈیا کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب نمازی مسجد سے باہر آرہے تھے۔

ایمرجنسی ہسپتال نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ کابل سٹی وزیر محمد اکبر خان مسجد کے سامنے ہونے والے دھماکے کے بعد چودہ افراد کو اس ہسپتال میں لے جایا گیا تھا، جن میں سے چار ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے اور دس زخمی ہو گئے۔

ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل شہر میں وزیر محمد اکبر خان کی مسجد کے سامنے ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا کہ مساجد پر حملہ اور نمازیوں کو نشانہ بنانا ’بڑا اور ناقابل معافی جرم‘ ہے۔

واقعے کے عینی شاہدین نے طلوع نیوز کے رپورٹر کو بتایا کہ کابل شہر میں وزیر محمد اکبر خان مسجد کے سامنے ہونے والے دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو اسی علاقے کے قریبی وزیر اکبر خان اسپتال لے جایا گیا۔
ابھی تک اس واقعے کے متاثرین کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

اس سے قبل 2 ستمبر کو ہرات کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم اٹھارہ نمازی ہلاک ہو گئےتھے۔ ہلاک شدگان میں طالبان کے معروف مبلغ مجیب الرحمان انصاری بھی شامل تھے۔ اس طرح ایک ماہ کے اندر اندر طالبان کے دو رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ۔

افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، 2 ستمبر کا دھماکہ جس وقت ہوا، اس وقت مسجد نماز جمعہ کے لیے آنے والے افراد سے بھری ہوئی تھی ۔ اس حملے میں کم از کم اکیس افراد زخمی بھی ہوئے۔ 

اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے مشہور مذہبی رہنما مجیب الرحمان انصاری  گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ نواز افغان حکومت پر تنقید کرتے آ رہے تھے اور افغانستان بھر میں ان کی وجہ شہرت بھی یہی تھی۔ یہ دھماکہ ہرات کی گزرگاہ مسجد میں ہوا۔

 مجیب الرحمان انصاری کو طالبان کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا تھا جبکہ طالبان کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے بھی مجیب الرحمان انصاری کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

ہرات دھماکے سے چند ہفتے قبل کابل میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کے دوران انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ”ہماری اسلامی حکومت کے خلاف چھوٹی سی حرکت‘‘ کرنے والوں کا بھی سر قلم کر دینا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ (طالبان کا) پرچم آسانی سے سربُلند نہیں ہوا اور اسے آسانی سے سرنگوں بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘

ایک ماہ کے بھی کم عرصے میں انصاری ہلاک ہونے والے دوسرے طالبان عالم ہیں۔ قبل ازیںرحیم اللہ حقانی کو کابل میں ان کے مدرسے میں ہی ایک خودکش حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

حقانی بھی داعش کے خلاف متعدد تقاریر کر چکے تھے اور وہ انہوں نے لڑکیوں کی سکینڈری سکول کی تعلیم کے حق میں بھی بیانات دیے تھے۔ بعد ازاں داعش نے ان کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔

 تاہم کسی بھی تنظیم یا گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ماضی میں مساجد پر ایسے بم حملوں کی ذمہ داری ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے شدت پسند قبول کرتے آئے ہیں۔ داعش نے افغانستان میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف بھی سلسلہ وار حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

طالبان حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ داعش کو افغانستان میں شکست دی جا چکی ہے جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کی داعش مستقبل میں بھی طالبان کے لیے مسائل کھڑی کرتے رہے گی اور طالبان کے لیے اس سے نمٹنا اتنا آسان نہ

۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button