افسر اور دفترتازہ ترینریاست اور سیاستقومی

آڈیو لیکس کمیٹی کا پہلا اجلاس آج رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں ہوگا

( مانیٹرنگ ڈیسک ) آڈیو لیک معاملے پر بنائی گئی کمیٹی کا پہلا اجلاس وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ کی زیر صدارت آج ہوگا۔

اجلاس میں وفاقی وزراء، آئی بی، آئی ایس آئی کے نمائندے اور سیکریٹری کابینہ بھی شریک ہوں گے۔

کمیٹی سرکاری دفاتر پر سائبر حملے روکنے کیلئے سفارشات تیار کرے گی۔

وزیراعظم ہاؤس کی سائبر سیکیورٹی سے متعلق پروٹوکولز کا جائزہ بھی لیا جائے گا، 15روز میں سفارشات وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔

آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں اعلٰی اختیاراتی کمیٹی کا پہلا اجلاس بدھ کو ہونا تھا۔

وزرات داخلہ کے ذرائع کے مطابق بدھ کو ہونے والا اجلاس چند ممبران کی ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے ملتوی ہو گیا تاہم کمیٹی کے ممبران اور اس کے ٹرمز آف ریفرنسز پر مشتمل نوٹی فیکیشن جاری کردیا گیا ۔

کمیٹی میں رانا ثنا اللہ کے علاوہ چار دیگر وزرا، ڈی جی آئی ایس آئی یا نمائندہ اور ڈی جی آئی بی کے علاوہ تکنیکی معاونین بھی شامل ہیں۔

نوٹی فیکیشن کے مطابق کمیٹی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان، وزیر مواصلات اسعد محمود اور وزیر آئی ٹی امین الحق شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی اے، آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور این ٹی آئی ایس بی کے تکنیکی ماہرین بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

نوٹی فیکیشن کے مطابق کمیٹی وزیراعظم ہاؤس میں سائبر سکیورٹی کی خلاف ورزی کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔

کمیٹی وزیراعظم ہاؤس میں سمارٹ فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپس اور دیگر آلات کے ساتھ منسلک خدشات کا جائزہ لے گی اور وزیراعظم ہاؤس سمیت مختلف حکومتی محکموں کی سائبر سکیورٹی بہتر کرنے کے حوالے سے تجاویز دے گی۔

یہ کمیٹی وزیراعظم ہاؤس کے موجودہ ای سیفٹی اور سائبر سکیورٹی کے نظام کا جائزہ لے گی اور آئندہ کے لیے فول پروف سکیورٹی اور ڈیجیٹل ایکوسسٹم کو یقینی بنائے گی۔

کمیٹی حساس ڈیٹا کی حفاظت شارٹ اور میڈیم ٹرم سفارشات تیار کرے گی اور اہم وزارتوں اور محکموں جیسے کہ نادرا، ایس ای سی پی، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک کے علاوہ دیگر ریگولیٹری اداروں کی سائبر سیکورٹی یقینی بنانے کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔

کمیٹی کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ اس مقصد کے لیے کسی دیگر ممبر یا ماہر کی رائے بھی حاصل کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں وزیراعظم ہاؤس کی آڈیوز منظرعام پر آنے کے بعد طلب کیے گئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ معاملے کی چھان بین کے لیے اعلٰی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آڈیو لیکس سامنے آئی ہے ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ یہ ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ فریقین میں سے کسی ایک کی رضامندی کے بغیر فرد (افراد) کے درمیان نجی گفتگو کو عام کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے۔  ’یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو اہم سرکاری دفاتر میں کھل کر کوئی بھی بات نہیں کر سکے گا۔

’میں خفیہ انداز سے ریکارڈ کی ہوئی آڈیو لیکس کو نہ ہی سنتا ہوں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتا ہوں۔ جو لوگ ایسی گفتگو کو اہمیت دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کم از کم اس امر کا ضرور خیال رکھیں کہ قومی راز عیاں نہ ہوں۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو ہمیشہ غلط تصور کی جاتی رہی ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ صحافت کے اندر سچائی کو پروان چڑھنا چاہیے۔ ’زرد صحافت کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے مگر ہر چیز کو اس کھاتے میں بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ ہمیں سوشل میڈیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا فورم ہے جس کو بند نہیں کیا جا سکتا۔

’ہماری عدالتوں نے بوجوہ غلط فہمی کی بنیاد پر دو سال تک یو ٹیوب کو بند رکھا۔ ایسے اقدامات سے معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے اور سوشل میڈیا میں نوجوانوں اور بچوں کے خلاف کاروائی کرنا مسائل کا حل نہیں۔‘

صدر مملکت نے کہا کہ ان فورمز پر پائی جانے والی فیک نیوز اور غیبت کے حوالے سے لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں اصل اور فیک نیوز میں فرق جاننے کے لیے تعلیم دینا ہوگی۔

صدر مملکت نے کہا کہ جدید دور کے مسائل کو پابندیاں لگا کر اور لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کے فرسودہ اور پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیکنالوجی کے فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں اور ہمیں اس کے منفی اور مثبت پہلووں کو بخوبی سمجھنا ہوگا۔

صدر مملکت نے خارجہ امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے ملک میں مثبت رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے ۔ چین کے ساتھ ہمارے سدا بہار  ، دیرینہ اور پائیدار تعلقات ہیں۔ امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر  اور دیرینہ دوست ہے ۔ 50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہونے والے اس تعلق کو ہم مزید جاری رکھنے کے خواہاں ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاک -امریکہ تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button