سیلابی پانی سے قدرتی ماحول کی بحالی ہو گی، ماہرین

( مانیٹرنگ ڈیسک ) نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشیانوگرافی (این آئی او) کے سابق ڈی جی ڈاکٹر شاہد امجد کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی ساحلی علاقوں کی قدرتی بحالی کا باعث بنے گا۔
ملک بالخصوص صوبۂ سندھ میں سیلاب کی تباہی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹھٹھہ اور بدین میں زمین تیزی سے سمندر برد ہو رہی ہے، ساحلی زمین سمندر برد ہونے کی ایک وجہ زیرِ زمین تازہ پانی کی کمی ہے۔
ڈاکٹر شاہد امجد نے بتایا کہ حالیہ سیلاب کے بعد ساحلی علاقوں میں زمین کے کٹاؤ میں کمی آ جائے گی، یہ سیلابی پانی دریاؤں کے ذریعے سمندر میں جاتا ہے۔
سابق ڈی جی این آئی یو نے بتایا کہ تیمر کے پودوں کو نشوونما کے لیے تازہ پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، 100 فیصد نمکین پانی میں تیمر کی نشوونما رک جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال تیمر کے پودوں اور جھینگوں کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، جھینگوں کے لاروا کو نشوونما کے لیے کم نمکین پانی درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد امجد نے بتایا کہ سیلابی پانی آنے سے جھینگوں کے لاروے زندہ رہنے کی شرح بڑھ جائے گی، رواں سال تیمر میں جھینگوں کے لاروا زیادہ ہوں گے۔
سابق ڈی جی این آئی او کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں میں تازہ پانی کی کمی سے زمین میں نمکیات بڑھ جاتی ہیں، سیلاب کا پانی ساحلی علاقوں میں زراعت میں مفید ثابت ہو گا۔
پاکستان کے تباہ کُن سیلاب سے سندھ میں 100 کلومیٹر چوڑی جھیل بن گئی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ناسا کی جانب سے 28 اگست کو خلاء سے لی گئی تصویر میں سندھ میں بڑی جھیل نمایاں ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سیٹیلائٹ امیج میں گہرا نیلا رنگ سیلابی جھیل کی نشاندہی کر رہا ہے۔
امریکی میڈیا نے بتایا کہ سیٹیلائٹ تصاویر میں شدید بارشوں، سیلاب سے سندھ کا بڑا حصہ ڈوبا نظر آ رہا ہے۔
ناسا کی جانب سے اگست 2021 اور اگست 2022 کی جاری کردہ 2 تصاویر میں سندھ کی زمینی حالت کا فرق نمایاں دکھایا گیا ہے۔

سندھ کی تازہ ترین سیٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلابوں نے صوبہ سندھ میں دریا کے اطراف 100 کلومیٹر کے علاقے کو جھیل میں بدل دیا ہے۔
ناسا کی تازہ سیٹیلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ریکارڈ سیلابوں کے باعث دریائے سندھ کے پانی نے اوور فلو ہو کر 100 کلومیٹر تک کے زرعی علاقے کو مکمل جھیل میں تبدیل کر دیا۔

پاکستان میں1961 سے موسمیاتی ڈیٹا کا ریکارڈ رکھا جانا شروع ہوا، تب سے یہ ملک کا بدترین مون سون سیزن ہے اور ابھی اس کے ختم ہونے میں پورا ایک مہینہ باقی ہے۔
رواں سیزن میں سندھ اور بلوچستان میں اب تک معمول سے 500 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ جون 2022 کے وسط سے پاکستان شدید مون سون بارشوں سے دوچار رہا جس کی وجہ سے ملک میں ایک دہائی میں بدترین سیلاب آیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے 33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور 10 لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوئے ہیں۔
پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں بدترین سیلاب آیا، بلوچستان اور سندھ میں اس سال اب تک 30 سال کی اوسط سے پانچ سے چھ گنا زیادہ بارش ہوئی ہے۔
ملک بھر میں تقریباً 150 پل اور 3500 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔