پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی صدر کے متنازعہ بیان پر وزارت خارجہ کا ردعمل

( سفیان سعید خان)امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستان سے متعلق دیے گئے ریمارکس پر وزارت خارجہ کے سینئر افسر کی جانب سے ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ کے سینئر افسر نے جوبائیڈن کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق دیے گئے بیان پر کہا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے صدر بائیڈن نے غیر ضروری ریمارکس کس تناظر میں دیے ہیں۔
وزارت خارجہ کے سینئر افسر کے مطابق متعدد امریکی صدور اور امریکی حکومت نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سیکیورٹی اور کنٹرولز کو ہمیشہ مؤثر اور معیاری قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بے قاعدہ قرار دے دیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی میں خطاب کے دوران روس اور چین کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کو لپیٹ میں لے لیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ میراخیال ہے کہ پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سےایک ہے۔
تحریک انصاف کا ردعمل
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی جانب سے امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق دیے گئے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے سعودی عرب کے بارے میں پرزہ رسائی اور اب پاکستان پر غیر ذمہ دارانہ بیان یوں لگتا ہے صدر بائیڈن امریکی عوام میں گرتی ہوئی ساکھ سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
چند دن پہلے سعودی عرب کے بارے میں پرزہ رسائ اور اب پاکستان پر غیر ذمہ دارانہ بیان یوں لگتا ہے صدر بائیڈن امریکی عوام میں گرتی ہوئ ساکھ سے توجہ ہٹانا چاھتا ہے صدر بائیڈن پاکستان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات فورًُا واپس لے،ہماری موجودہ لیڈرشپ کمزور ہوسکتی ہے لیکن عوام کمزورنہی
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 15, 2022
فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹ میں مزید لکھا ہے کہ صدر بائیڈن پاکستان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات فورًا واپس لے، ہماری موجودہ لیڈر شپ کمزور ہوسکتی ہے لیکن عوام کمزور نہیں۔
کیا جوبائیڈن کے خدشات کا پس منظر درست ہے؟
اس سے قبل 5 اکتوبر کو امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ یوکرین میں ناکامیوں کے بعد روس کی جانب سے ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے استعمال کا امکان سامنے آنے سے دنیا میں شدید ایٹمی تباہی کا خطرہ ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق ڈیموکریٹک سینیٹری کمپین کمیٹی کے لیے فنڈ ریزنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد سے دنیا میں ’ایٹمی تباہی‘ کا خطرہ شدید ترین ہے کیونکہ روسی حکام یوکرین پر آٹھ ماہ سے جاری حملے میں بڑے پیمانے پر ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’روسی صدر ولادی میر پوتن ایک ایسے شخص ہیں، جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں اور جب وہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں یا حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں تو روسی رہنما مذاق نہیں کرتے۔‘
بائیڈن نے مزید کہا کہ ’کینیڈی اور کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے ہمیں جوہری تباہی کے امکان کا سامنا نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ولادی میر پوتن کی طرف سے خطرہ حقیقی ہے‘ کیونکہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فوج نمایاں طور پر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘
امریکی صدر نے روسی جوہری نظریے کو بھی چیلنج کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ کم طاقت والے ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا استعمال تیزی سے بے قابو ہو کر عالمی تباہی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار آسانی سے استعمال کرنے کی صلاحیت ہو اور تباہی کے ساتھ ختم نہ ہو، میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی چیز ہے۔‘
ڈیموکریٹک ڈونرز سے بات کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اب بھی یوکرین میں پوتن کی ’آف ریمپ‘ حکمت عملی کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی صدر نے پوچھا کہ ’ان کے لیے باہر نکلنے کا راستہ کہاں سے ہے؟ وہ اس پوزیشن میں کہاں ہیں کہ وہ نہ صرف روس میں بہت بڑی طاقت سے محروم ہو جائیں گے بلکہ اپنی ساکھ بھی کھو دیں گے؟‘
ادھر روسی صدر ولادی میر پوتن چند روز قبل کہہ چکے ہیں کہ روس اپنے دفاع کے لیے تمام وسائل استعمال کرے گا۔
21 ستمبر کو اپنے ایک خطاب میں ان کا کہنا تھا: ’میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں بھی تباہی پھیلانے والے مختلف ذرائع ہیں اور جب ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو روس اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے، ہم یقینی طور پر اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع استعمال کریں گے۔‘
روسی صدر نے کیمرے کی طرف گھورتے ہوئے مزید کہا: ’یہ مذاق نہیں ہے۔‘
ولادی میر پوتن نے بارہا اپنے ملک کے بڑے جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ گذشتہ ماہ بھی انہوں نے یوکرین میں لڑنے کے لیے روسی مردوں کو بھرتی کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ روس پر ’واضح‘ کر چکا ہے کہ یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے ’نتائج‘ کیا ہوں گے۔
جیک سلیوان نے کہا: ’یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور روس کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اس تاریک راستے پر جانے کی صورت میں امریکہ کس طرح کا فیصلہ کن ردعمل دے سکتا ہے۔‘
خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی حکام کئی ماہ سے اس امکان کے بارے میں متنبہ کر رہے ہیں کہ روس یوکرین میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کر سکتا ہے کیونکہ اسے میدان جنگ میں متعدد ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان کے مطابق اس ہفتے روس کی جوہری افواج میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آئی جس سے امریکی جوہری افواج کی پوزیشن میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرن جین پیری نے منگل کو کہا تھا: ’ہمیں اپنی تزویراتی جوہری پوزیشن کو تبدیل کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی اور نہ ہی ہمارے پاس اس بات کا کوئی اشارہ ہے کہ روس فوری طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر نسبتاً چھوٹے، تزویراتی حملے ہوں گے، لیکن بائیڈن نے متنبہ کیا کہ ایک محدود علاقے میں اس طرح کے حملوں سے اب بھی وسیع پیمانے پر کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہو گا۔
دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے جمعرات کو کہا تھا کہ ’ولادی میر پوتن سمجھتے ہیں کہ دنیا روسی جوہری حملے کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘
زیلنسکی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد وہ اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے اور مجھے اس پر یقین ہے۔