عمران خان نا اہلی سے بچنے کیلئے امریکیوں کے در پر سر بسجود

( مانیٹرنگ ڈیسک ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ان دنوں عمران خان کی سابق خاتون امریکی سفارتکار رابن رافیل سے بنی گالہ میں ملاقات کے چرچے ہیں ہر باخبر صحافی اور میڈیا ہاوس اس بات پر مدلل ہے کہ غیر ملکی قوتوں کو آشیرباد سے تعبیر کرنے والا عمران خان خود امریکا سے اپنی سیاسی بقا کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔
گزشتہ روز جب عمران خان خاتون جج کو دھمکیوں سے متعلق کیس کے سلسلے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تو وہاں موجود صحافیوں نے عمران خان سے انکی تازہ ترین "غلامی کی درخواست” سے متعلق سوالات کیئے لیکن عمران خان کا جواب تھا کہ وہ بہت خطرناک ہیں ،انہوں نے بطور غلام امریکی نمائندہ کے سامنے پیش ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ۔
ایسے موقع پر اس طرز عمل سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ واضح لفظوں میں جواب نہ دینے والا دانستہ طور پر صورتحال کو مبہم رکھ کر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، تاہم چوبیس گھنٹے بعد ہونے والی اپنی پریس کانفرنس میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان اور رابن رافیل کی ملاقات تین سال پہلے ہوئی تھی۔
تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس ملاقات کے حوالے سے ان کی عمران خان سے کوئی بات نہیں ہوئی گویا اس موقع پر بھی ابہام کی گنجائش برقرار رکھی گئی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے خوشدلی سے یہ بھی کہا کہ اگر رابن رافیل پاکستان میں ہی موجود ہیں تو ان سے ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رابن رافیل محض سفارتکار ہی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ان کی شخصیت کے متنازعہ پہلو بھی ہیں، یاد رہے کہ 80 کی دہائی میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر آرنلڈ لوئیس رافیل کی بیوہ ہیں جو 17 اگست 1988میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔
سینئر سفارتکار کی حیثیت سے ان کی اہلیہ پاکستان کے امور کی ماہر سمجھی جاتی ہیں وہ پاکستان کیلئے امریکہ کے غیر فوجی ترقیاتی پروگراموں کی رابطہ کار بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کے خصوصی نمائندے کیلئے پاکستانی امور کی مشیر بھی۔
میڈیا پر موضوع بحث بننے والی عمران خان اور رابن رافیل کی مبینہ ملاقات کے کئی گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے ایک رسمی اور مختصر سی تردید بھی سامنے آئی تھی جس کا مقصد بظاہر ’’تاکہ باوقت ضرورت کام آئے‘‘ لگتا تھا۔
یاد رہے اس سے قبل پشاور کے دورے کے دوران امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور عمران خان کے ٹیلیفونک رابطے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں اور اس حوالے سے فواد چوہدری کے رابطہ کار ہونے کا ذکر بھی اس مرتبہ بھی فواد چوہدری کا حوالہ امریکی سفیر سے ان کے سفارتخانے میں ملاقات کا سامنے آیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بھی بہت پرانی ملاقات کی بات ہے۔
اگر دانندگان راز اور تجزیہ کار رابن رافیل اور عمران خان کی ملاقات کو اس پس منظر میں دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین جنہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے کی بڑی ذمہ داری امریکی حکومت پر عائد کی تھی اور اپنے جلسوں میں ایک ’’ سفارتی دستاویز‘‘ لہراتے ہوئے امریکہ کی شدید مخالفت کرتے تھے اس حوالے سے ان کے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے اور بتدریج جارحانہ انداز اختیار کرنے والی تنقید اور الزامات کا سلسلہ برائے نام رہ گیا ہے۔