ایران میں مکمل حجاب نہ کرنے پرتشدد سے 22 سالہ لڑکی ہلاک

( مانیٹرنگ ڈیسک ) مکمل حجاب نہ کرنے پر تہران پولیس نے 22 سالہ مھسا امینی کو حراست میں لے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ کومہ میں چلی گئی، دوران علاج نوجوان لڑکی زندگی کی بازی ہار گئی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مھسا امینی کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی کو منگل کے روز کومہ کی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔
اسپتال منتقلی کے بعد اسے مکمل طور پر وینٹی لیٹر پر رکھا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور جمعے کو زندگی کی بازی ہار گئی۔
The circumstances leading to the suspicious death in custody of 22-year-old young woman Mahsa Amini, which include allegations of torture and other ill-treatment in custody, must be criminally investigated. 1/2 pic.twitter.com/pcAVeTWUnW
— Amnesty Iran (@AmnestyIran) September 16, 2022
مھسا امینی کے بھائی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ تہران گھومنے آئے ہوئے تھے کہ اس دوران پولیس نے لباس کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنے اور حجاب میں سے بال نظر آنے پر مھسا کو گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا پولیس اہلکار تھانے میں بہن سے پوچھ گچھ کر رہے تھے اور میں باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک ایمبولینس آئی اور مھسا کو ہسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ ہمیں بتایا گیا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مھسا کے پولیس سٹیشن پہنچنے کے بعد سے لے کر ہسپتال جانے تک کیا ہوا تھا۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ مھسا کے سر پر چوٹ آئی تھی۔
دوسری جانب مھسا امینی کے اہل خانہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے نوجوان لڑکی کی زیر حراست مبینہ موت پر ایرانی حکومت سے انصاف کا مطالبہ کر دیا ہے۔
مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ذریعہ گرفتاری اور پھر ان پر مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاکت کے خلاف سوشل میڈیا پر لوگوں نے سخت نکتہ چینی کی اور مظاہرے کے لیے سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جمعے کے روز 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔
مہسا امینی کو منگل کے روز اخلاقی پولیس نے اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب حجاب کے سخت قوانین پر عمل نہ کرتے ہوئے انہوں نے مبینہ طورپر اپنا سر ڈھانپ نہیں رکھا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز حراست میں انہیں مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔
پولیس نے مہسا امینی کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے ساتھ کسی طرح تشدد کے الزامات کی تردید کی ہے۔ پولیس نے ایک کلوزڈ سرکٹ فوٹیج جاری کیا ہے جس میں امینی کو تھانے میں ایک پولیس افسر کے ساتھ بات کرنے کے لیے اپنی نشست سے اٹھنے کے فوراً بعد منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہیں ایک اسٹریچر پر ڈال کر لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
مشتبہ موت کے خلاف مظاہرے
ایران کے معروف وکیل سعید دہگان نے امینی کی موت کو ”قتل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امینی کے سر پر ڈنڈے مارے گئے جس کی وجہ سے ان کا سر پھٹ گیا۔
امینی کے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں قلب کی کسی مرض کی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”جن حالات میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی حراست میں مشتبہ موت ہوئی ہے، اس میں انہیں مبینہ طور پر اذیتیں دی گئیں اور حوالات میں برا سلوک کیا گیا۔ اس مجرمانہ حرکت کی تفتیش کی جانی چاہئے۔‘‘
متعدد اراکین پارلیمان نے کہا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھائیں گے جب کہ عدلیہ نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے گی۔
اس دوران صدر ابراہیم رئیسی نے وزیر داخلہ احمد واحدی کو ”واقعے کی ہنگامی نوعیت کے سبب اس پر فوری توجہ دیتے ہوئے اس کی تفتیش‘‘ کرانے کا حکم دیا ہے۔
اخلاقی پولیس کی نکتہ چینی
ایران کے شرعی قانون کے مطابق خواتین کو گھروں سے باہرنکلنے پر سروں کو لازمی طور پر ڈھانپ کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عوامی سرزنش، جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اخلاقی پولیس ایسے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے لیے موجود رہتی ہے۔
شریعہ قوانین کے مختلف پہلو
اخلاقی پولیس کے ذریعہ خواتین کے خلاف کارروائی کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ سن 2017 میں ان قوانین کے مخالفت کرتے ہوئے درجنوں خواتین نے سرعام اپنے حجاب اتار دیے تھے۔ لیکن اخلاقی پولیس نے ان خواتین کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔
نصف ایرانی عوام حجاب کے قانون کے خلاف، حکومتی رپورٹ
اصلاح پسند سابق صدر محمد خاتمی نے اخلاقی پولیس کے رویے کو ”تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے جب کہ سابق رکن پارلیمان محمود صادقی نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے امینی کے معاملے پر بیان دینے کا مطالبہ کیا۔
‘حجاب کے خلاف احتجاج کرنے والی ایرانی خاتون کہاں گئی‘
صادقی نے ٹویٹر پر پوچھا، ”جارج فلائیڈ کی موت پر امریکی پولیس کی بجا طور پر مذمت کرنے والے سپریم لیڈر مہسا امینی کے ساتھ ایرانی پولیس کے سلوک کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘