حکومتی اتحادیوں نے ٹرانس جینڈر بل عدالت میں چیلنج کر دیا

( سفیان سعید خان ) حکومتی اتحاد میں شامل بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔
جے یو آئی ف نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کو شریعت کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ایکٹ خلاف شریعت قرار دیا جائے۔
جے یو آئی ف کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔
شریعت کورٹ نے جے یو آئی کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 3 اکتوبر کی تاریخ رکھ دی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے بل پر اعتراضات
یاد رہے کہ چند روز قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ٹرانس جینڈر بل کی کئی دفعات کو خلاف شریعت قرار دیا تھا جبکہ جماعت اسلامی بھی بل کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ ایکٹ کی متعدد دفعات شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، ٹرانس جینڈر ایکٹ نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں حقیقی مخنث کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، حکومت ٹرانس جینڈر افراد کے بارے میں ایکٹ کے جائزے کیلئے کمیٹی بنائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی اسلامی نظریاتی کونسل، علماء، ماہرین قانون، ماہرین طب پر مشتمل ہو، کمیٹی خواجہ سراؤں کے بارے میں قانون کا تفصیلی جائزہ لے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب ترمیمی قانون 2022 کی تعریف بھی کی اور کہا کہ نیب قانون سے متعلق کونسل کی دیگر سفارشات کو بھی شامل کیا جائے۔
پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عرف عام میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کہا جاتا ہے۔یہ قانون مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں پاس ہوا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی بھر پور مخالفت کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔
جماعت اسلامی کی جانب سے اس قانون کے خلاف درخواست عمران شفیق ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق انھوں نے یہ درخواست آئین پاکستان کے تحت دائر کی، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شریعت سے متصادم کوئی بھی قانون متعارف نہیں کروایا جا سکتا۔
جماعت اسلامی نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی کن شقوں کو چیلنج کیا اور دوسری جانب اس بل کو پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور کروانے والے اس بارے میں کیا کہتے ہیں، اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں لیکن پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایکٹ کیا کہتا ہے۔
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔
نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔
ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انھیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
خواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔
دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔
قمر نسیم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انٹر سیکس سے مراد پیدائشی مخنث افراد ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان مردوں کی تشریح کی گئی ہے جو اپنے جنسی اعضا کی طبی طریقے سے ترمیم کرواتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو اپنی پیدائش کی جنس یا صنف سے متضاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’جیسے پیدائشی لڑکا دعویٰ کرے کہ وہ لڑکی ہے یا پیدائشی لڑکی دعویٰ کرے کہ وہ لڑکا ہے۔‘