گیس کا بحران شدید تر وزیراعظم کا ہنگامی اجلاس

(مانیٹرنگ ڈیسک )وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گیس لوڈشیڈنگ کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے آج بروز ہفتہ 3 دسمبر کو اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت توانائی کے متعلقہ حکام کو شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے اجلاس لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے سردیوں میں شہریوں کو گیس لوڈشیڈنگ میں ریلیف دینے کیلئے متعلقہ حکام سے پلان مانگا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔ اجلاس میں سردیوں میں گیس فراہمی کی سٹریٹجی کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ گیس قلت کیوجہ سے بجلی کی پیداوار میں ممکنہ کمی پر بھی غور ہوگا۔
اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت توانائی کے متعلقہ حکام کو شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔
پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کافی سال سے معمول بن چکا ہے۔ ملک میں سردیوں کی آمد ہے اور اس بار بھی ملک میں گیس کی کمی کی وجہ سے تجارتی اور گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گے۔
ملک کے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے بھی گیس کی کمی کے بارے میں چند ہفتے قبل آگاہ کیا تھا۔ ایک پریس کانفرنس میں مصدق ملک نے کہا کہ حکومت کی جانب سے گیس لوڈ مینجمینٹ پلان ترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ مختلف شعبوں کو ضرورت کے مطابق اتنی گیس فراہم کی جا سکے کہ وہ گیس کی کمی سے کم متاثر ہوں۔
پاکستان میں گیس کا بحران گزشتہ سال بھی شدید تھا جب ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور اس وقت کے وزیر توانائی حماد اظہر نے گھریلو صارفین کو دن میں تین وقت (جن اوقات میں ناشتہ اور کھانا تیار کیا جاتا ہے) گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں گیس، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان انرجی بک کے مطابق ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے جو ملکی پیداوار اور درآمدی گیس پر مشتمل ہے۔
گیس کے شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں گیس کی کمی کی وجوہات میں اس کی ملکی پیداوار میں مسلسل ہونے والی کمی کے ساتھ عالمی منڈی میں گیس کی قیمت میں اضافہ ہے۔
پاکستان کے لیے اب مہنگی درآمدی گیس خرید کر اسے کم نرخوں پر مقامی صارفین کو بیچنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ مزید بڑھ سکتا ہے، جو ملک کی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ تین سال میں 350 ارب روپے سے 650 ارب روپے ہو گیا۔
گیس کی کمی کیوں ہوئی؟
پاکستان میں گیس بحران نے گزشتہ چند سال میں شدت اختیار کی ہے اور اس سال اس بحران میں مزید شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کی حکومت کو مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کرنے کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں جب آر ایل این جی سستی تھی تو اس وقت اس کے طویل مدتی معاہدے نہ کرنے پر ذمہ دار ٹھہرایا۔
وزیراعظم کے کوآرڈینٹر برائے توانائی بلا ل اظہر کیانی نے اس سلسلے میں بتایا کہ کورونا کے وقت عالمی منڈی میں آر ایل این جی سستی تھی تو اس وقت تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی طویل مدتی معاہدہ نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ نقصان ہوا کہ جب عالمی منڈی میں گیس کی قیمت اوپر چلی گئی تو اس کی خریداری پاکستان کے لیے مشکل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی بھی پاکستان کو درآمدی گیس ان آر ایل این جی کے معاہدوں پر مل رہی ہے جو نون لیگ کی سابقہ حکومت کے دور میں ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ یورپ میں گیس کی طلب سردی کی وجہ سے بڑھ گئی ہے اور روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے گیس سپلائی متاثر ہوئی ہے، جس نے قیمتوں کو اوپر کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یورپین ملکوں کے پاس وسائل ہیں اور وہ اپنے صارفین کے لیے مہنگی گیس بھی خرید رہے ہیں لیکن پاکستان کے پاس بہت زیادہ وسائل نہیں کہ وہ یہ مہنگی گیس خرید سکے۔
پاکستان کتنی گیس کی کمی کا شکار ہے؟
پاکستان میں گیس کی طلب درآمدی اور مقامی ذرائع سے پوری کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان قطر اور ای این آئی سے لانگ ٹرم معاہدوں کے تحت گیس لے رہا ہے۔
گیس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے سپاٹ کارگو یعنی عالمی منڈی میں موجودہ قیمت پر دیے جانے والے ٹنیڈرز کے سامنے کوئی بولی اکتوبر کے مہینے میں موصول نہیں ہوئی۔
اس ٹینڈر کے تحت پاکستان کو اگلے پورے سال میں 12 ایل این جی کارگو منگوانے تھے، جو جنوری سے لے کر دسمبر تک منگوائے جانے تھے تاہم ان کے سامنے حکومت کو کوئی بولی نہیں ملی۔