تازہ ترینتھانہ کچہریریاست اور سیاست

کیا عدالت عظمی نے نواز شریف کی تاحیات نا اہلی ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے؟

( سفیان سعید خان ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ زندگی بھر کے لیے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واوڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے نہ حقائق چھپائے نہ بددیانتی کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل وسیم سجاد سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے؟

وکیل وسیم سجاد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے، ان کے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی 18جون کو ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟

فیصل واوڈا کے وکیل نے جواب دیا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا امریکی شہریت چھوڑ دی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے فیصل واوڈا کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے جا کر نیشنیلٹی منسوخ کرائی؟

وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ میرے موکل نے امریکی سفارت خانے جا کر کہہ دیا تھا کہ نیشنیلٹی چھوڑ رہا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے ایمبیسی جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو؟

وکیل نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے آپ نے زحمت ہی نہیں کی کہ دہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟

وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نادرا نے 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ نے امریکی سفارت خانے جا کر شہریت کینسل نہیں کرائی تو نادرا نے سرٹیفکیٹ کیسے جاری کر دیا؟

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا کی امریکی شہریت کینسل نہیں ہوئی تھی۔

فیصل واوڈا کے وکیل نے کہا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بےایمان نہیں کہا جاسکتا، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی۔

آرٹیکل 62 کہانی چیف جسٹس کی زبانی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 4 اکتوبر کی سماعت کے دوران سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل ووڈا کی الیکشن کمیشن کی طرف سے تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ تاحیات نااہلی کا قانون ایک ’کالا قانون‘ ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے دوہری شہریت چھپانے پر فیصل ووڈا کو آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ سب سے پہلے اس معاملے کو دیکھتے ہیں کہ یہ قانون ہے کیا جو کہ کسی بھی رکن پارلیمان کو تاحیات نااہل قرار دیتا ہے۔

آئین کی شق 62 ون ایف کے مطابق پارلیمنٹ کا رکن بننے کے خواہش مند شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ سمجھدار ہو، پارسا ہو، ایماندار ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کیخلاف نہ آیا ہو۔

آئین کی یہ شق کسی شخص کے ’صادق اور امین‘ ہونے کے بارے میں ہے اور چونکہ اس قانون کے تحت ملنے والی سزا کا تعین ہی نہیں کیا گیا تو یہی تصور کیا گیا کہ نااہلی تاحیات ہی ہو گی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف فیصل واوڈا کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے آئین کی شق 62 ون ایف کو ’کالا قانون‘ قرار دینے کے برعکس آج سے چار سال پہلے 2018 میں جسٹس عمر عطا بندیال اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے جنھوں نے اسی قانون کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد یہ قرار دیا تھا کہ اس قانون کے تحت نااہل ہونے والہ شخص تاحیات نا اہل تصور ہو گا اور وہ کسی الیکشن میں حصہ لینے اور عوامی عہدہ رکھنے کا اہل نہیں ہو گا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم ہونے والے پانچ رکنی بینچ نے اس قانون کے تحت رکن پارلیمان کی نااہلی تاحیات قرار دینے کا جب متفقہ فیصلہ دیا تو وہ فیصلہ بھی جسٹس عمر عطا بندیال نے ہی تحریر کیا تھا اور یہ فیصلہ بھی انھوں نے ہی کمرہ عدالت میں پڑھ کر سنایا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے فیصلہ سنانے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ پاکستانی عوام کو اچھے کردار کے حامل رہنماؤں کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button