بلاگصحافت اور صحافی

ایاز امیر انکے والد اور ضیا شاہد کی زندگیوں کی ہولناک کہانی اظہر سعید کی زبانی

 ( مانیٹرنگ ڈیسک( معروف تجزیہ کار ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز کے ہاتھوں قتل ہونے والی اُس کی بیوی سارہ کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا،مقتولہ سارہ کے سر، ماتھے اور بازوؤں پر زخم کے نشانات ہیں۔ 

پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ واردات کے وقت قاتل نارمل تھا، وہ کسی نشے کی حالت میں نہیں تھا۔

معروف صحافی ایاز امیر سے متعلق خبریں تجزے اور تبصرے اسوقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں ، سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد اس بہیمانہ قتل کو صحافی ایاز امیر کے ماضی اور خاندان سے بھی جوڑ رہے ہیں صحافی اظہر سعید نے اپنے ٹوئیٹر پر ایک طویل تھرڈ شئیر کیا ہے اظہر سعید لکھتے ہیں کہ کہاوت ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔ یہ بھی کہاوت ہے قدرت کسی کو معاف نہیں کرتی ۔صدیوں کی انسانی دانش یہ بھی ہے وقت کی چکی بہت باریک پیستی ہے اور یہ بھی محاورہ ہے دیر ضرور ہوتی ہے اندھیر نہیں ہوتا ۔

معروف صحافی ایاز امیر کے باپ پر الزام تھا۔اس نے ایک لڑکی کی عصمت دری کی اور اس لڑکی نے اپنا بدلہ یوں لیا کہ موقع تلاش کر کے اسے قتل کیا اور لاش اس حال میں ملی اسکی "چیز”کاٹ کر اس کے منہ میں ڈالی ہوئی تھی ۔

اظہر سعید مزید لکھتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں ایف سیون کے ایک بنگلہ سے روز رات کو ایک عورت کے چیخنے کی آوازیں آتی تھیں ۔ اہل محلہ مسلسل پولیس کو رپورٹ کرتے تھے لیکن اس دور میں ایاز امیر کا طوطی بولتا تھا اور اپنی بیوی پر ہر روز تشدد کے باوجود پولیس داد رسی نہیں کرتی تھی ۔

ایاز امیر پر ایک کم عمر لڑکی کی عصمت دری کا مقدمہ بھی درج ہوا تھا لیکن ایاز امیر اپنے اثر رسوخ سے بچ نکلا ۔ آج صبح ایاز امیر کے بیٹے نے اپنی بیوی سارا کو قتل کر دیا ۔

صحافت کے معروف نام ضیا شاہد پر الزام تھا اس نے لاہور کے معروف کاروباری علاقہ میں ایک بلڈنگ کرایہ پر لی اور مالک پر توہین رسالت کا الزام لگوا کر گرفتار کرا دیا جو جیل میں قتل ہو گیا ۔پھر کیا ہوا ؟ ضیا شاہد کا نوجوان ،ہونہار اور شاندار بیٹا عدنان شاہد اچانک ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا اور خود ضیا شاہد مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر مرا ۔ضیا شاہد جو اپنے غرور کی وجہ سے ہمیشہ سر اٹھا کر بات کرتا تھا زندگی کے آخری دس سال اس نےکبڑے ہو کر گزارے کہ کمر کے مہرے کینسر کی وجہ سے جواب دے گئے تھے ۔

خوشنود علی خان کے بھائی خلیل ملک کو ایک لڑکی نے قتل کر دیا ۔ عمران خان کا سابقہ چیف آف سٹاف نعیم الحق ہمیشہ جھوٹ بولتا تھا اور پراپیگنڈہ کرتا تھا اسے ایک خوفناک بیماری لاحق ہو گئی آخری دنوں میں اس کے انتہائی قریبی لوگ بھی اس کے قریب نہیں جاتے تھے اور پھر وہ سسک سسک کر اس حالت میں مر گیا جبکہ عہدہ وفاقی وزیر کا تھا ۔ عامر لیاقت لوگوں کی عزتیں اچھالتا تھا ۔

لوگوں پر کفر کے فتوے لگاتا تھا جس طرح مرا اللہ سے ہمیشہ ڈرنا چاہئے ۔ جنرل عثمانی جنرل مشرف کے مارشل لا کو مسلط کرنے والے کرداروں میں سے ایک تھا ۔کراچی کی ایک سڑک پر خستہ حالت میں اسکی کار سے لاش برآمد ہوئی ۔ جنرل مشرف اس وقت دوبئی کے ایک ہسپتال میں ایک نایاب بیماری کے ہاتھوں لمحہ لمحہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس بیماری کا کوئی علاج بھی نہیں ۔

جنرل احتشام ضمیر جو جنرل مشرف کے قریبی ساتھیوں میں تھے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں آگ لگنے سے زندہ جل گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے والے چیف جسٹس مولوی مشتاق کے جنازے پر شہید کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا اور لوگ جنازہ سڑک پر چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔

نتیجہ یہ ہے ظلم نہ کریں جواب دینا پڑے گا ۔ناانصافی نہ کریں قدرت کی چکی بہت باریک پیستی ہے ۔ملک اور قوم سے غداری نہ کریں انجام بہت خوفناک ہو گا ۔پیسے لے کر جھوٹ کو سچ نہ بنائیں ۔

جو لکھیں جو کریں اپنے ضمیر کو جوابدہ بنا کر لکھیں اور کریں ۔ قدرت سے لڑنے کی طاقت ہے تو جو مرضی کریں اگر قدرت سے نہیں لڑ سکتے تو پھر انسان کے بچوں کی طرح زندگی گزاریں ۔

ساری زندگی رپورٹنگ کرتے گزر گئی بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ عزت ،دولت اور طاقت سب کچھ عارضی ہے اور ہر چیز کا حساب کتاب ہوتا ہے ۔

یہ ممکن ہی نہیں ظلم کریں اور بچ نکلیں ایک دن چکی کے پاٹ میں آنا ہی پڑتا ہے اور وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button