ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والےسیالکوٹ کے دو بھائیوں کے والدین آج کس حال میں ہیں ؟

یہ اگست 2010 کا واقعہ ہے۔ مغیر کے چچا زاد بھائیوں، 18 برس کے حافظ مغیث اور 15 برس کے منیب پر اہلِ علاقہ نے ڈاکہ زنی اور قتل کا جھوٹا الزام لگایا اور انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔سینکڑوں افراد کے مجمعے میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔
ان محافظوں کے بیچ انھیں رسیوں سے باندھا گیا، ڈنڈوں سے اس قدر مارا گیا کہ ان کے جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہ رہی۔ وہ ریسکیو اہلکاروں سے مدد مانگتے رہ گئے۔ پھر ان کی لاشیں ریسکیو کی عمارت کے ساتھ پانی کی ٹینکی پر لگے پائپ سے لٹکا دی گئیں۔ لاشے لٹکانے والے آج آزاد ہیں۔
سیالکوٹ شہر کے بیچ اس قبرستان میں سینکڑوں کچی قبریں ہیں۔ تنگ راہداری کے ایک طرف کچی اینٹوں کا مکان ہے، جو یہاں کے گورکن اور ان کے اہلخانہ کی رہائش گاہ ہے۔ دوسری طرف قبریں ہیں۔ انھی میں مغیث اور منیب کی قبریں بھی ہیں۔ ان کے والدین اس واقعے سے جڑی اذیت کے باعث اب اس کا ذکر نہیں کرتے۔ بی بی سی نے ان کے چچا ضرار بٹ سے بات کی۔ وہ ان کے مقدمے میں مدعی بھی تھے اور ہمیں اس قبرستان میں لے گئے جہاں دونوں بھائی دفن ہیں۔
ضرار بٹ بتاتے ہیں کہ ان کا بڑا بھتیجا تقریباً ایک گھنٹہ مار برداشت کرتا رہا۔ وہ باڈی بلڈنگ کرتا تھا اور یہی چیز نقصان دے گئی
’چھوٹا تو چند منٹ میں مر گیا تھا مگر بڑا بھتیجا اس وقت بھی زندہ تھا جب انھیں ریسیکیو 1122 کے دفتر کے ساتھ ٹینکی کے پائپ پر لٹکایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ منیب اور مغیث کی والدہ اب نفسیاتی مریض بن گئی ہیں اور بیمار رہتی ہیں۔
’ایک باپ یا ماں کے لیے اس سے بڑی کیا اذیت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دو جوان بیٹوں کو قبر میں اتار دیں۔ میری بھابی اس حادثے کے بعد نفسیاتی مریض بن گئی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اندر ہی اندر ختم ہو گئی ہیں۔ فیملی کے سامنے حوصلے سے بات کرتی ہیں مگر اکیلے میں وہ روتی رہتی ہیں۔‘
’میرا بھائی، خدا کی رضا سمجھ کر انھوں نے صبر تو کیا مگر ان کے چہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس اذیت میں ہیں۔ ہمیں توقع تھی کہ عدالت سے کچھ انصاف ملے گا تو وہ ہمارے زخموں کا مداوا ہو گا مگر جب دس سال بعد ہی انھیں سپریم کورٹ سے رہائی ملی تو بہت دکھ ہوا۔‘خیال رہے کہ ان بھائیوں کے مقدمے میں ستمبر 2011 میں انسداد دہشتگردی عدالت نے واقعے میں ملوث سات افراد کو چار چار مرتبہ سزائے موت اور چھہ ملزمان کو چار چار بار عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ کوتاہی برتنے پر اس وقت کے ڈی پی او سیالکوٹ وقار چوہان سمیت حملے کے وقت ہجوم میں موجود نو پولیس اہلکاروں کو تین تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا مگر عدالت نے یہ فیصلہ برقرار رکھا اور سنہ 2015 میں ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے۔ تاہم سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ چیلنج ہوا اور گذشتہ برس ان افراد کی سزا کو کم کیا گیا اور دس سال میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے بعد اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے بیشتر ملزمان اپنی سزا پوری کر کے آزاد ہو گئے ہیں۔
ضرار بٹ اور ان کا خاندان عدالتی فیصلے سے مطمئن نہیں اور کہتے ہیں کہ ایک طویل اور کٹھن سفر کے بعد انھیں انصاف نہیں ملا۔
’ساری دنیا کو علم ہے کہ ہمارے بچوں پر ظلم ہوا، شواہد موجود تھے مگر انصاف ڈھونڈنے میں پچیس سے تیس لاکھ روپے لگ گئے۔ ہماری کوشش کا مقصد یہی تھا کہ یہ واقعات دوبارہ نہ ہوں، کسی اور کا گھر نہ اجڑے۔ ہمارے کیس میں عدالت سخت سزا دے دیتی تو معاشرے میں اس قسم کے واقعات میں کمی آ جاتی۔‘
ضرار بٹ کے مطابق ’جب کمزور فیصلے ہوئے تو معاشرے میں بے حسی آئی۔ انھیں علم ہے کہ اگر وہ ہجوم کا حصہ بنیں گے تو انھیں سخت سزا نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعات ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے گئے۔‘ مگر ضرار بٹ ان لوگوں کو مشورہ ضرور دیتے ہیں جو زندگی میں کسی موقع پر مشتعل ہجوم کا حصہ بننے کا سوچ سکتے ہیں۔
’ایک بار یہ سوچ لیں کہ ان پر کیا گزرے گی، جن کے جگر گوشے کو آپ مار رہے ہیں۔ خدا کے لیے اس اذیت کو سمجھیں جو ان ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں پر گزرتی ہے اور یہ بھی سوچیں کہ خود آپ کے خاندان پر کیا گزرے گی۔ سکون تو انھیں بھی نہیں ملے گا۔‘