افسر اور دفترتازہ ترینریاست اور سیاست

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسحاق ڈار کا دائمی وارنٹ گرفتاری وارنٹ معطل کر دیا

( سفیان سعید خان ) اسلام آباد نے اسحاق ڈار کے 7 اکتوبر تک وارنٹ معطل کر دئیے۔ جج محمد بشیر نے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کو پاکستان آنے پر گرفتار نہ کیا جائے۔ اسحاق ڈار پاکستان واپس آ جائیں پھر وارنٹ منسوخی کو دیکھیں گے۔

احتساب عدالت اسلام آباد میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح عدالت میں پیش ہوئے۔

حتساب عدالت اسلام آباد میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح عدالت میں پیش ہوئے۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت جج محمد بشیر نے کی، اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وکیل اسحاق ڈار نے عدالت سے استدعا کی کہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جائے۔ اسحاق ڈار ایئرپورٹ پر اترتے ہی سیدھے عدالت پیش ہو جائیں گے۔

جج محمد بشیر نے استفسار کیا افضل قریشی پراسیکوٹر کہاں ہیں، نیب پراسیکوٹر نے بتایا کہ افضل قریشی عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئے ہوئے ہیں۔

عدالت نے اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ معطل کرتے ہوئے انھیں سرنڈر کرنے کا موقع دیدیا، جج محمد بشیر نے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کو پاکستان آنے پر گرفتار نہ کیا جائے، اسحاق ڈار پاکستان واپس آ جائیں پھر وارنٹ منسوخی کو دیکھیں گے۔

دو روز قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست  احتساب عدالت میں دائر کی تھی، اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری نیب واپس لے۔

وکیل قاضی مصباح نے عدالت سے استدعا کی کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سرنڈر کرنے کے لیے تیار ہیں اس لیے ان کو پاکستان واپسی پر گرفتار نہ کیا جائے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کی درخواست پرتعزیرات پاکستان میں بغاوت کی دفعہ 124اے کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ پر اعتماد کرکے اسے مضبوط بنائیں۔عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہےمداخلت نہیں کریں گے۔ بغاوت قانون کے خلاف درخواست پر مناسب حکم جاری کریں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی درخواست پرسماعت کی۔دورن سماعت شیریں مزاری کے وکیل نے دلائل دیئے کہ بغاوت کی دفعہ 124اے اظہار رائےکی آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔بغاوت کی دفعہ 124اےآئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی بغاوت الزامات کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔عدالت نے شیریں مزاری کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔آپ کو پارلیمنٹ جانا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرے گی۔سب کو پارلیمان پر اعتماد کرنا چاہیے۔اسلام آبادہائیکورٹ بغاوت کے مقدمات غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔پی ٹی آئی پارلیمنٹ کا حصہ ہے قانون سازی کرسکتی ہے۔درخواست گزار شیریں مزاری متاثرہ فریق نہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button