فارن فنڈنگ کیس میں اہم پیش رفت، کیا عمران خان نااہل ہو جائیں گے؟

( رضا ہاشمی ) "فارن فنڈنگ کیس” میں ایف آئی اے کی تحقیقات میں غیر معمولی انکشافات سامنے آئے ہیں، تحقیقات میں عمران خان کی ذاتی درخواست پر کھولے گئے دو اکائونٹس کا ڈیٹا مل گیا ہے۔ذرائع کے مطابق عمران خان جن دواکاونٹس کو خود آپریٹ کرتے تھے، اس میں 80 لاکھ روپے کی رقم برآمد ہوئی ہے.
عمران خان کے قریبی ساتھی سردار اظہر طارق، کرنل (ر) یونس علی رضا اس میں شریک جرم ہیں۔ حبیب بینک لمیٹڈ سوک سینٹر اسلام آباد کے ان دو اکائونٹس میں چالیس،چالیس لاکھ کی رقم کی تفصیل برآمد ہوئیں،اکاؤنٹ نمبر 03-79010231-0602 میں چالیس لاکھ آئے اور چالیس لاکھ نکلوا ئے گئے،دوسرے اکاؤنٹ نمبر 03-79010514-0602 میں چالیس لاکھ ا لگ آئے اور چالیس لا کھ نکلوا لئے گئے مصدقہ بینک ریکارڈ کے مطابق ان دونوں اکاؤنٹ میں رقوم کی تاریخ 3 اپریل 2013 سامنے آئی ہے۔
صرف دواکاونٹس ہیں، تحقیقات جاری ہیں، ووٹن کرکٹ لمینڈ میں 8 مئی 2013 کو 5 لاکھ 75 ہزار امریکی ڈالر کی ایک اور اینٹری پکڑی گئی ہے۔ اب تک ووٹن سے مجموعی طور پرعمران خان کو ملنے والی رقم 32 لاکھ 43 ہزار امریکی ڈالر ریکارڈ پر آئی ہے کے نام پر آنے والا پیر ذاتی اکاؤنٹس میں گیا عمران خان کے استعمال میں آیا۔
الیکشن کمیشن کے 2 اگست 2022 کے آرڈر میں لکھا ہے کہ عمران خان کی ذاتی درخواست پر کھولے گئے یہ دونوں اکاؤنٹس چھپائے گئے۔ ایف آئی اے قانون کے مطابق ان دونوں اکاؤنٹس میں عمران خان کو طلب کرے گا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی مل چکے ہیں جس میں عمران خان اور اس کے قریبی دوست ملوث ہیں۔
فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟ہ
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔
اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔
اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہُنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔
اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درخواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
فارن فنڈنگ کے حوالے سے پاکستان کا قانون
لیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
لیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ2017 جو کہ پارلیمنٹ میں موجود پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا، میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گیے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ سنہ 2002 کی دفعات 204 سے لے کر 212 تک کو شامل کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ تمام دفعات سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگز سے متعلق ہیں۔
اس قانون کے آرٹیکل 210 کے تحت اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے بیرون ممالک سے چندہ حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا، جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔
الیکشن کمشن ایکٹ سنہ 2017 کی شق 212 کے تحت ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے فنڈز کی پاداش میں الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھییجے گی۔
اگر سپریم کورٹ ایسی سیاسی جماعت کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔
ایسا ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔