عمران خان کا نئے آرمی چیف کی تقرری کیلئے شہباز شریف سے رابطہ

(مانیٹرنگ ڈیسک )وزیراعظم شہبازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے ایک ماہ پہلے مشترکہ کاروباری دوست کے ذریعے رابطہ کیا۔
وزیراعظم نے لاہور میں وی لاگرز سے ملاقات میں کی اور گفتگو میں بتایا کہ عمران خان نے مذاکرات کی پیشکش کی اور وہ دو معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھاکہ پہلا معاملہ آرمی چیف کی تقرری کا اور دوسرا انتخابات کا تھا لیکن میں نے انکار کیا تاہم میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات کرنے کی پیشکش کی۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ عمران خان نے کہا تین نام میں بھجواتا ہوں اور تین آپ دیں، مل کر آرمی چیف لگا لیتے ہیں، میں نے شکریہ کہہ کر انکار کردیا اور پیغام بھجوایا کہ یہ ایک آئینی فریضہ ہے جو وزیراعظم نے ادا کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مجھ سے اجازت لے کرپریس کانفرنس کی۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاور تو ان کے ہاتھ میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔
ایوان صدر میں ہوئی ملاقات پر عمران خان کا کہنا تھاکہ یہ ملاقات چھپ کر نہیں ہوئی تھی بس اسے عام نہيں کیا تھا کہ مذاکرات ہورہے تھے، اس میٹنگ کا صرف ایک مقصد تھا صاف اور شفاف الیکشن۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ دوسرے روز شاہدرہ سے رچنا ٹاؤن پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بالآخر 2018 میں قائم کیے گئے ہائبرڈ کٹھ پتلی نیم سیاسی نظام کے تانے بانے ٹوٹ کر سامنے آگئے ہیں اور گزشتہ اپوزیشن جماعتوں کے جمہوری مؤقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ ہائبرڈ نظام کا واحد بینیفشری آپے سے باہر ہوچکا ہے اور اپنے سرپرستوں کے ہاتھ کاٹنے پر آگیا ہے،جن ہاتھوں نے اسے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا تھا۔
گزشتہ پانچ ماہ سے جاری میر جعفر، میر صادق، سہولت کاروں اور غدار غدار کی رٹ نے آرمی لیڈر شپ کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ گو کہ عمران خان فوجی قیادت پر دباؤ تو اس لیے بڑھا رہے تھے کہ انہیں پھر سے مقتدرہ کی وہی ناجائز حمایت مل جائے جس کے طفیل آزمودہ سیاسی قیادتوں کو ذلیل و رسوا کر کے دیوار سے لگادیا گیا تھا اور عمران خان کی دیانت و امانت کی خیالی ریاست مدینہ کا خواب بُنا گیا تھا لیکن خان صاحب بھول گئے تھے کہ حماقت دہرانا بدتر حماقت ہے۔
مقتدرہ کا ان سے معاشقہ بری طرح سے ناکام ہوچکا تھا اور وہ طو ہاً و کرہاً نیوٹریلٹی پر مجبور ہوکر پیچھے ہٹ گئی، لیکن اب بھی لاڈلے کے ہیجان انگیز نخروں اور اشتعال انگیز طعنوں کو نظر انداز کیے ہوئے تھی، جس کی کہ آخر کوئی حد آنی تھی۔ بہت ہی خوفناک اشتعال انگیزیوں کو درگزر کیا گیا اور جب ارشد شریف کی خوفناک حادثاتی موت یا بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ بھی ماورائی قوتوں کے سر تھوپ دی گئی تو جیسے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ پہلی بار آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم اور آئی ایس پی آر چیف جنرل بابر پریس کے سامنے فوج کا نقطۂ نظر بیان کرنے آگئے۔ انہوں نے سائفر کی سازشی کہانی کو سو فیصد جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے عمران خان کے فوج مخالف دوغلے قول و فعل کو کھول کر سامنے رکھ دیا۔