بھارتی ہیکرز کی جانب سے پاکستان کی اہم شخصیات کی ذاتی ای میلز کی جاسوسی

(سوجھل مہتاب)برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی ہیکرز کے ایک گروپ نے پاکستانی سیاستدانوں، عسکری عہدیداروں اور سفارتکاروں کے ذاتی ای میلز اور بات چیت کی جاسوسی کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی ہیکرز نے پاکستان کے نامور سیاستدانوں، عسکری افسران اور سفیروں کی ذاتی ای میلز کی جاسوسی کی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’وائٹ اِنٹ‘ نامی یہ ہیکنگ گروپ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب شہر ’گروگرام‘ میں واقع ایک اپارٹمنٹ سے اپنے تمام آپریشنز چلاتا ہے، اس گروہ کا ماسٹر مائنڈ 31 سالہ ادتیا جین ہے جو بھارت میں برطانوی اکاؤنٹسی فرم ڈیلائٹ میں ملازمت کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دی سٹی آف لندن سے منسلک نجی جاسوسوں نے ان ہیکرزکے گروہ کو برطانوی کاروباری شخصیات، سرکاری عہدیداروں اور صحافیوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا۔
رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ گروہ کا سرغنہ ادتیا جین 7 سال سے ہیکنگ نیٹ ورک چلا رہا ہے، اور اس کی ٹیم نے جاسوسی کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے کمپیوٹر کے کیمروں اور مائیکرو فون کا کنٹرول حاصل کیا جس سے وہ باتیں سننے کے علاوہ حرکات پر بھی نظر رکھ سکتے تھے۔
خبررساں ادارے نے انکشاف کیا کہ ہیکرز کو بھارتی خفیہ ادارے کے احکامات پر پاکستانی سیاستدانوں، جرنیلوں اور سفارتکاروں کے کمپیوٹرز کو ہیک کیا اور ان کی ذاتی بات چیت کی بھی جاسوسی کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہیکرز نے جن کی جاسوسی کی ان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی شامل ہیں۔ جب کہ رواں برس 10 جنوری کو اس وقت کے وزیراطلاعات فواد چوہدری کا ای میل اکاؤنٹ بھی ہیک کیا تھا۔
Revelation by https://t.co/1dyGalB1xF is extremely concerning not the first time @ModiJanta has acquired services of hackers to hack accounts of Pak leadership, I strongly condemn this unethical practice of #ModiJanta will the intern FM of Pak raise this issue? pic.twitter.com/XA9vsLRkq1
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 6, 2022
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہیکرز نے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے کمپیوٹرز کو ہیک کیا اور اعلٰی جرنیلوں کے علاوہ بیجنگ، شنگھائی اور کھٹمنڈو میں سفارتخانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اور اب تک درجنوں ہائی پروفائل پاکستانی عہدیداروں کے ای میلز کو نشانہ بناچکے ہیں۔
خبررساں ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہیکنگ کی غرض سے ہائر کیے جانے والے کسی ایسے گروہ کے اندرونی معاملات تک میڈیا کو رسائی ملی ہے جن میں متعدد مجرمانہ سازشوں کا انکشاف ہوا ہے۔
2022 میں، پاکستان کو سائبر سیکیورٹی چیلنجز کاسامنا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ ہو، ایف بی آر، پی ٹی وی سپورٹس یا کمرشل بینک، گزشتہ چند ماہ سے ملک کی تقریباً ہر صنعت متاثر ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق کے مطابق پاکستان میں روزانہ 900,000 سے زیادہ ہیکنگ کے واقعات ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے حالیہ آڈیو لیکس پر تبادلہ خیال کیا، جس میں اہم حکومتی عہدیداروں کے درمیان واضح گفتگو کی گئی ہے، اور فوری تحقیقات کے ساتھ ساتھ از سر نو قانونی فریم ورک کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، قابل اعتماد فرم جو سیکیورٹی ایڈوائزری جاری کر سکتی ہیں، مقامی خطرات کی نشاندہی کر سکتی ہیں، اور مینڈیئنٹ جیسی خطرے کی انٹیلی جنس میں فرنٹ لائن مہارت رکھتی ہیں، ابھی پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ سائلو میں کام کرنے والے پرتیبھا کے چھوٹے، بکھرے ہوئے جزیرے ہیں – ان کے درمیان بہت کم ہم آہنگی یا نوٹوں کا تبادلہ۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ہماری وزارت آئی ٹی سنگاپور سے کچھ سبق لے سکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے سائبر سیکیورٹی سروس فراہم کرنے والوں کے لیے لائسنسنگ کا فریم ورک ترتیب دیا ہے۔ سائبرسیکیوریٹی سروسز ریگولیشن آفس (CSRO)، جس کی درجہ بندی پینیٹریشن ٹیسٹنگ اور سیکیورٹی آپریشنز سینٹر مانیٹرنگ سروس فراہم کنندگان میں کی گئی ہے، ایک نئے سرٹیفیکیشن پروگرام کے تحت تربیت پر صنعت اور وسیع تر عوام کے درمیان رابطوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔