ایران میں مظاہروں کے دوران 17 افراد ہلاک، امریکا نے ایران کی اخلاقی پولیس پر پابندی عائد کردی

( مانیٹرنگ ڈیسک ٰ) ایران میں مظاہروں کے دوران 17 افراد جاں بحق ہوگئے، امریکا نے ایران کی اخلاقی پولیس پر پابندی کا اعلان کردیا۔
امریکا نے مہسا امینی کے مبینہ قتل اور پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر ایران کی اخلاقی پولیس اور سات اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مہسا امینی کی موت المناک اور سفاکانہ ہے جس کی امریکا پر زور مذمت کرتا ہے۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر امریکا ایران کی اخلاقی پولیس اور اعلیٰ سیکیورٹی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کررہا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن نے کہا ایرانی حکومت خواتین پر مظالم کو ختم اور پرامن احتجاج کا حق دے، امریکا ایران میں انسانی حقوق کی حمایت جاری رکھے گا اور اسکی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کرے گا۔
22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں اخلاقی پولیس نے 13 ستمبر کو ٹھیک سے اسکارف نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا، اخلاقی پولیس کی حراست کے دوران مہسا امینی مبینہ تشدد سے کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔
مہسا امینی کی موت کی خبر آتے ہی ایران میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور اب تک پرتشدد مظاہروں میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 17 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
جن ایرانی سیکیورٹی افسران پر امریکا نے پابندی عائد کی ہے ان میں اخلاقی پولیس کے سربراہ محمد رستمی، اخلاقی پولیس تہران کے سربراہ احمد مرزائی، ایران کے وزیر برائے انٹیلی جنس اسماعیل خاطب، غیر مسلح مظاہرین کو کنٹرول کرنے والی باسج فورس کے ڈپٹی کمانڈر سالار ابنوش، لاء انفورسمنٹ فورس کے ڈپٹی کمانڈر قاسم رضائی، ایل ای ایف کے چہار محل اور بختیاری صوبوں کے کمانڈر منوچہر امان االلہ اور ایرانی فوج کی گراؤنڈ فورسز کے کمانڈر کیومرس حیدری شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور غیر مناسب لباس پہنے ہوئے افراد کو حراست میں لینے کا کام کرتی ہے، ایرانی قانون کے تحت خواتین کا حجاب پہننا لازمی اور چست لباس پہننے پر پابندی ہے۔
ایران کی ’گشتِ ارشاد‘ پولیس کے خصوصی یونٹ ہیں جنھیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ’غیر مناسب‘ لباس پہنے ہوئے افراد کو حراست میں لینے کا کام سونپا گیا ہے۔
ایرانی قانون کے تحت، جو اسلامی شریعت کی ایرانی تشریح پر مبنی ہے، خواتین کو اپنے بالوں کو حجاب (سر پر سکارف) سے ڈھانپنا چاہیے اور چست لباس پہننے پر پابندی ہے تاکہ جسم کے خدو خال نمایاں نہ ہوں۔
ایرانی حکام کی ’خراب حجاب‘ کے خلاف جنگ یعنی سر پر سکارف یا دیگر لازمی لباس کو غلط طریقے سے پہننے کے خلاف کارروائی کا سلسلہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد شروع ہوا، جس کا ایک بڑا مقصد خواتین کو عام اور سادہ لباس پہنانا تھا۔
مغرب نواز شاہ محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹنے سے پہلے تہران کی سڑکوں پر منی سکرٹس اور کھلے بالوں کے ساتھ خواتین کا نظر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ شاہ محمد رضا پہلوی کی اہلیہ فرح، جو اکثر مغربی لباس پہنتی تھیں، کو ایک جدید عورت کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
تاہم، ایران میں اسلامی انقلاب کے چند مہینوں کے اندر ہی شاہ رضا پہلوی کے دورِ حکومت میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قوانین منسوخ ہونے لگے تھے۔