لازوال گیتوں کے خالق احمد راہی کو بچھڑے 20 سال ہو گئے

( مانیٹرنگ ڈیسک ) اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر احمد راہی کو ہم سے جدا ہوئے آج بیس سال ہو گئے۔
احمد راہی اپنے فلمی گیتوں کی وجہ سے معروف ہیں تاہم انھوں نے اردو اور خاص طور پر پنجابی شاعری میں ایک نیا لہجہ متعارف کرایا جو ان کی پہچان بنا۔۔
12 نومبر 1923ء اردو اور پنجابی کے نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار احمد راہی کی تاریخ پیدائش ہے۔احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا اور وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔
1946ء میں ان کی ایک اردو نظم آخری ملاقات افکار میں شائع ہوئی جو ان کی پہچان بن گئی۔ اس کے بعد ان کا کلام برصغیر کے مختلف ادبی جرائد کی زینت بننے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں قیام پذیر ہوئے اور ماہنامہ سویرا کے مدیر مقرر کئے گئے۔ 1953ء میں پنجابی زبان میں ان کا شعری مجموعہ ترنجن شائع ہوا جس نے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل کی
ترنجن کی نظموں میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندومسلم فسادات میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بڑے شاعرانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے:۔
اس شعری مجموعے میں پنجابی ثقافت اور تقسیم ہند میں پیش آنے والے واقعات کو ہیر۔ صاحباں اور سوہنی جیسے لوک کرداروں کی تشبیہات سے پیش کیا گیا ہے۔ اس شعری مجموعے کی بیشتر نظمیں انھوں نے دو آزاد ہونے والی قوموں میں تقسیم کے وقت مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی ہلاکت اور وحشیانہ ظلم پر سوگ کے لکھی تھیں۔
ان کا پنجابی کلام کا ایک اور مجموعہ ً نمی نمی ہوا ً بھی شائع ہوا اور ً رگ جان ً کے نام سے ان کا اردو کلام پر مبنی مجموعہ ان کی موت کے بعد منظر عام میں آیا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس پانے، ہیر رانجھا اور مرزا جٹ جیسی شہرہ آفاق کلاسیک فلموں کے مصنف اور ان کے سدا بہار نغموں کے خالق احمد راہی ستمبر 2002 میں اس جان فانی سے رخصت ہو گئے۔
ان کے روحانی پیشوا نے خورشید احمد رکھا لیکن ان کو شہرت احمد راہی کے نام سے ملی۔ آپ کے والد کا نام خواجہ عبدالعزیز تھا جو کڑھائی والی اونی شالوں کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی۔ 1942 میں انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ 1942 میں میٹرک کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انہوں نے ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ سیکنڈ ائر میں طالب علموں کی لاہور میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کو کالج کی انتظامیہ نے کالج سے نکال دیا۔ کالج سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے والد محترم کے کڑھائی والی اونی شالوں کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اس تجارت کے لئے انہوں نے کلکتہ کا سفر کیا۔
1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد وہ امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ انہوں نے پاکستان کی آزادی کے وقت پیش آنے والے واقعات اور خونریزی سے متعلق بہت کچھ لکھا۔ تقسیم ہند میں مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ کیے جانے والے مظالم ان کے لئے ایک انتہائی تکلیف دہ ذاتی تجربہ تھا۔ مذہبی تعصب اور فرقہ ورانہ عداوتوں کے واقعات سے آپ ذاتی طور پر متاثر ہوئے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا۔ ان کی پہلی کتاب ترنجن 1952 میں شائع ہوا۔ ترنجن کا پہلا حصہ پنجاب کی الہڑ مٹیاروں کے الہڑ جذبات اور پنجاب کی ثقافت پر مبنی ہے اور دوسرا حصہ انہی الہڑ دوشیزاؤں پر آزادی کے وقت ڈھائے گئے ظلم اور خونریزی کے متعلق ہے۔
ہجرت کے بعد انہوں نے اپنا ٹھکانا لاہور میں بنایا۔ ان کو لاہور سے شائع ہونے والے ادبی میگزین ً سویرا ً میں بطور ایڈیٹر پچیس روپے ماہوار کی قلیل تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔ سویرا میں ان دنوں اردو اور پنجابی ادب کے چوٹی کے دانشوروں کے مضامین۔ غزلیں، افسانے اور دیگر تخلیقات چھپتی تھیں ان میں سعادت حسن منٹو۔ ن۔ م۔ راشد۔ احمد ندیم قاسمی، امرتا پریتم اور اس وقت کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ آپ سویرا میں جان پہچان کے عنوان سے ادیبوں اور شاعروں پر مختصر تعارفی مضامین لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے امرتا پریتم۔ بلونت سنگھ۔ زہرہ نگار۔ حنیف رامے۔ ادا جعفری۔ احمد ندیم قاسمی۔ فراق گورکھپوری۔ کیفی اعظمی۔ فکر تونسوی اور ممتاز مفتی سمیت بہت سے ادیبوں کی اپنے قارئین سے جان پہچان کروائی۔
آزادی پاکستان کے بعد احمد راہی نے اپنے قریبی دوستوں معروف فلمساز و ہدایتکار سیف الدین سیف، سعادت حسن منٹو اور فیض احمد فیض کے ساتھ لاہور کے تاریخی پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ پاک ٹی ہاؤس لاہور اس وقت دانش وروں، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی آماجگاہ تھی جو لاہور کے ادبی اور ثقافتی ماضی کے بارے میں جانتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظریہ ان دنوں ترقی پسند مصنفین اور دانشوروں کے لئے ایک مرکزی مقام بن گیا تھا۔ ان دانشوروں میں ساحر لدھیانوی، منیر نیازی، اے حمید۔ اشفاق احمد، ابن انشا، ناصر کاظمی اور ان جیسے بہت سے دوست شامل تھے۔