سندھ اور بلوچستان کا زمینی راستہ 9 ویں روز بھی بحال نہ ہو سکا

( شیتل ملک ) بولان میں سیلاب سے متاثرہ قومی شاہراہ اور پنجرہ پل بحال نہ ہونے سے سندھ اور بلوچستان کا زمینی راستہ 9 روز سے معطل ہے۔
سیلاب متاثرین سخت گرم موسم میں اپنے پیاروں کی میتیں اور بزرگوں کو بولان کے دشوار گزار راستوں اور بولان ندی سے گزارنے پر مجبور ہیں۔
شاہراہ کی بندش سے مال بردار گاڑیاں 8 روز سے کھڑی ہیں جس کے باعث گاڑیوں میں موجود سبزیاں اور کھانے پینے کی دیگر اشیا خراب ہونے لگی ہیں۔ قومی شاہراہ پر پناہ لیے متاثرین نے حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے۔
ڈیرا مراد جمالی میں بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب تک ریلیف آپریشن شروع نہیں کیا جاسکا تاہم شمالی بلوچستان میں تباہ حال سڑکوں کی عارضی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال مون سون کی شدید بارشوں نے بلوچستان میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
محکمے نے جون کے اوائل میں الرٹ جاری کر دیا تھا کہ اس سال جولائی اگست میں تیز بارشیں ہوں گی۔
محکمہ موسمیات بلوچستان کے اسسٹنٹ پروگرامر اظہر علی کے مطابق اب تک بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کی مقدار بارکھان 137 ملی میٹر، دالبندین میٹر ملی میٹر 33.7، گوادر 153.2 ملی میٹر، جیوانی 63 ملی میٹر، قلات 87 ملی میٹر، خضدار 216 ملی میٹر، لسبیلہ 384.4 ملی میٹر، پنجگور 170 ملی میٹر، پسنی 190.3 ملی میٹر، کوئٹہ 47 ملی میٹر، سبی 144 ملی میٹر، تربت 88 ملی میٹر، اورماڑہ 121 ملی میٹر، اور ژوب 85 ملی میٹر رہی۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ‘بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس سال اوسط %90 بارشیں زیادہ ہوئی ہیں اور ابھی مون سون کا ایک اور سپیل باقی ہے۔’
ان بارشوں سے بلوچستان کے مجموعی 34 اضلاع میں سے 26 اضلاع طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
بپھری ندیوں میں، کھرڑی، درروالا، کولڑی، ھنجری اور دریائے ہنگول و بورالی کے پانی نے خاصی تباہی مچائی ہے۔ گاﺅں کے گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر ریلیف عطااللہ مینگل نے بتایا کہ ‘جو اضلاع زیادہ متاثر ہوئے ان میں لسبیلہ، جھل مگسی، کچھی، نوشکی، پنجگور، قلات، کوئٹہ، پشین اور قلعہ سیف اللہ شامل ہیں۔’
پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اورجرمن واچ انڈیکس کے مطابق پچھلے بارہ سال سے خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں اولین دس ممالک میں شامل ہے۔
زیادہ بارشیں اور کم وقت میں تیز اور زیادہ بارشیں ابھی ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔
ڈپٹی کمشنر عمر کوٹ کے آفس سے پرسنل اسسٹنٹ مشتاق علی نے اتفاق کیا کہ ‘بارشوں کا الرٹ موجود تھا، اس حوالے سے بلوچستان جانے والوں کو باخبر کیا جا سکتا تھا جو نہیں کیا گیا۔’
سندھ کے ہاریوں کی تعداد یا ڈیٹا کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ لیبر ڈپارٹمنٹ کا کام ہے کہ وہ ایسا ڈیٹا اکٹھا کرے اور کون کہاں کہاں جارہا ہے ، ان پر نظر رکھے۔’
لسبیلہ یونیورسٹی کے ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ ‘قدرتی آفات سے نمٹنے کے تین مراحل ہوتے ہیں ، قبل از وقت، آفات کے دوران اور بعد از آفات۔
‘قبل از وقت میں ڈیٹا اکٹھا کرنا ایک اہم سرگرمی ہے، اس کے علاوہ ندی نالوں کی صفائی، پانی نکلنے کے راستے کھلے رکھنا اور لوگوں کو اس حوالے سے شعور دینا اور باخبر رکھنا شامل ہے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘آفات کے دوران یعنی اس وقت لوگوں کو ریسکیو یا مدد فراہم کرنا، انھیں محفوظ مقامات پر پہنچانا، خوراک، اور طبی سہولیات کی فراہمی ضروری ہوتی ہے جبکہ بعد از آفات میں ان لوگوں کی آباد کاری،گھروں کی دوبارہ تعمیر اور معاشی ذرائع کی بحالی شامل ہے۔ ان تمام مراحل میں ماہرین خصوصاً ٹیکنیکل ایکسپرٹ کی شمولیت بہت ضروری ہے۔’
انکا کا کہنا ہے ‘محکمہ موسمیات کی الرٹ موجود تھی۔ بہت کچھ کیا جاسکتا تھا جو نہیں کیا گیا۔ اگرچہ اب ریسکیو کام جاری ہے مگر تباہی کا جو پیمانہ ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کام بہت کم نظر آتا ہے۔
‘قدرتی آفات اسی وقت آفات بنتی ہیں جب آپ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس سال کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر آئندہ کے لیے احتیاط اور کوئی حکمت عملی تیار کر لی جائے تو بہتر ہوگا۔’
متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن خاصا فعال نظر آتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کا ڈیٹا ان کے پاس بھی نہیں ہے۔
مون سون کا سیزن ابھی جاری ہے، حکومت کے مختلف محکمے بھی کام کر رہے ہیں مگر اطلاع ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی سیلابی ریلوں میں پھنسی ہوئی ہے اور بے شمار لوگ روڈ کے کنارے امداد کے منتظر ہیں۔
سڑک کنارے لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘ہم تو سال بھر کے لیے پیسے کمانے آئے تھے مگر اب جان بچ جائے تو بڑی بات ہے۔
‘چند گھونٹ صاف پانی، چند نوالے روٹی اور ایک پیناڈول گولی ہمارے لیے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔’