مریم نواز اور شہباز شریف کی آڈیو لیک کے قانونی وسیاسی پہلو اور تحریک انصاف کا بیانیہ

(اسیس مہتاب )مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو جس کا لیکس کے طور پر پراپیگنڈا کیا جارہا ہے اس وقت کی عمران خان کی کنفیوز حکومتی پالیسی کے بارے میں ہے، یہ پالیسی 2020 میں نافذ کی گئی تھی۔
اس آڈیو کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ یہ قانون کے دائرے کے اندر ہے۔
مریم نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق پاور پلانٹ کی درآمد پر 2020 میں ابہام تھا، یہ پاور پلانٹ تکیمل کے آخری مرحلے میں تھا اس وقت پابندی عائد کی گئی تھی۔
یہ مبینہ آڈیو لیک کوئی معنی نہیں رکھتی کیوں کہ اس میں دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو قانون اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی۔ یہ تاثر کہ مریم نواز شریف اپنے داماد کیلئے فیور مانگ رہی تھی تاہم یہ بات بھی فضول ہے کیوں کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔
اثر یہ دیا جارہا ہے کہ مریم نواز شریف نے حکومت کو کہا کہ وہ اپنے داماد کی کمپنی کو انڈین پاور پلانٹ درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس پاور پلانٹ کا 60 فیصد کام انڈین درآمدات پر پابندی سے پہلے ہی مکمل ہوچکا تھا۔
سوشل میڈیا پر جاری مبینہ آڈیو لیک میں معاملے کی مکمل تصویر بھی نہیں دکھائی گئی۔
اسی اثناء کمپنی کے ذرائع نے نمائندے کو بتایا کہ وہ حکومت کی پوزیشن کا مکمل احترام کرتے ہیں اور بقیہ پراجیکٹ چین سے مشینری درآمد کرکے مکمل کیا جائے جس سے کمپنی پر ایک ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر پاور پلانٹ جو دیگر کمپنیوں کے زیر استعمال تھیں ان کی مشنری بھارت سے درآمد کی گئی تھی۔ اسی لئے اس معاملے پر حکومت سے وضاحت مانگنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان تصادم کی سیاست کا جو راستہ اختیار کر رہے ہیں ، اس سے انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ آج کے حالات 2014 اور 2016 سے بہت مختلف ہیں لیکن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی حکومت عمران خان کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں کیونکہ ان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر ہے اور ان کا سیاسی دبائو حکومت کے لیے پریشان کن رہے گا ۔ لہٰذا حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات دونوں فریقین کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی خوش آئند ہوں گے۔
عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سیاست میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ ان کامیابیوں کے کئی ظاہر اور مخفی عوامل ہیں ۔ انہوں نے اپنے عہد کے سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے کے اپنے بیانیہ کو قبول عام بخشا ۔ یہ بیانیہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ 1947 ء سے چلا رہی تھی ۔ اس کے نزدیک ہر عہد کے سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں لیکن اس بیانیہ کو وہ عوامی پذیرائی نہیں ملی ، جو عمران خان نے دلائی ۔ عمران خان نے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو دھکیل کر اپنی جگہ بنائی ۔ 2014 ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف عمران خان نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد میں جو طویل دھرنا دیا ، وہ پاکستان کی سیاست کا انوکھا واقعہ ہے ۔ اس دھرنے سے عمران خان سیاسی طو رپر بہت مضبوط ہوئے۔