منچھر جھیل اور دانستر نہر خطرے کی نئی گھنٹیاں

( شیتل ملک ) منچھر جھیل پر پانی کا دباؤ بڑھنے کے بعد دانستر نہر پر بھی پانی کا دباؤ بڑھنے لگا جس سے نہرکے دروازے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق منچھر جھیل میں پانی کے دباؤ کے نتیجے میں دانستر نہر کے دروازوں کے اوپر سے پانی اور فلو ہونے لگا اور دروازوں سے اور فلو ہونے والا پانی دانستر نہر میں داخل ہو رہا ہے۔
ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ جھیل کے سطح 22 فٹ سے زائد ہونے کے باوجود پانی گیٹ کے اوپر سے اور فلو ہو رہا ہے اور دانستر نہر کے دروازوں پر پانی کا دباؤ بڑھنے کے باعث نہر کے دروازے ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ دانستر نہر کا ایک دروازہ 2020 میں ٹوٹا گیا تھا، اس وقت نیا دروازہ نہ ملنے پر ایک استعمال شدہ دروازہ نصب کیا گیا تھا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق نصب شدہ گیٹ کی لمبائی کی سائیز 18 تھی اور گیٹ پر 4 فٹ کی لوہے کی چادر نصب کی گئی تھی۔
ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت منچھر جھیل میں پانی کی سطح 122 آرایل سے زائد ہے اوردانستر گیٹ کی لمبائی لوہے کی نصب شدہ چادر کے ساتھ 22 فٹ ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ2010 ء کے بعد ملک کو سب سے بڑے سیلاب کا سامناہے۔ اس وقت نارمل سے زیادہ بارش ہوئی۔ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ایسی بارش کیلئے اقدامات کرسکیں، سیلاب کی تباہی سے کچھ حفاظتی بندوں پر دباؤ ہے جو بڑے دیہات اور شہروں کیلئے باعث خطرہ ہیں لیکن انکے تحفظ کیلئے ریلیف کٹ دینے کا فیصلہ وزیر آبپاشی کے تحت ماہر آبپاشی کو دیا گیا ہے۔
ہم نے مختلف دیہاتوں اور ٹاؤنز کی حفاظت کی اور اس جدوجہد میں آج میرا گاؤں عبداللہ شاہ بھی منچھر جھیل کے بڑھتے پانی سے زیر آب آگیا ہے۔ سیلاب سے صوبے میں30 لاکھ مکان تباہ ہوئے، کسی جگہ کوئی کچا مکان نہیں بچا، پکے مکان بھی رہنے کے قابل نہیں رہے، سب سے درخواست ہےصبر سے کام لیں، پانی قدرتی گزر گاہوں سے سمندر تک جائے گا۔ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
محکمہ آب پاشی کےمطابق اس وقت منچھر جھیل میں121 فٹ 8 انچ پانی موجود ہے۔جھیل کا پانی اوور ٹاپ ہونے کے باعث یونین کاؤنسل جھانگارا، باجارا کے چھوٹے بڑے سینکڑوں دیہات زیر آب آچکےہیں۔
منچھر جھیل میں پانی بڑھنے کے باعث تحصیل سیہون کی مزید یونین کاؤنسلزبوبک، دل، آراضی، جعفرآباد اور واہڑ کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
وزیرآب پاشی سندھ جام خان شورو نے کہا ہے کہ منچھر جھیل کو کسی بھی مقام پر سے کٹ نہیں دیا جارہا ہے۔ منچھر جھیل کے آر ڈی 62 پر صورتحال خراب ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کو کنٹرول کرنا ایک ڈپارٹمنٹ یا سندھ حکومت کے بس کی بات نہیں۔ منچھر جھیل کے پشتوں پر پولیس تعینات کی ہے تا کہ عام لوگوں کی داخلہ بند رہے۔
جون 2022 میں سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) کے کمپوننٹ 1 اور 3 کا انتظامی کنٹرول نہیں لے گی، اور منچھر جھیل کی ماحولیاتی بحالی کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا۔
حکومت کا کہنا تھا کہ آر بی او ڈی سیریز کا ایک اہم حصہ آر بی او ڈی 2 نقائص کا شکار اور نامکمل ہے اس وجہ سے واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی جانب سے تعمیر کردہ آر بی او ڈی 1 اور آر بی او ڈی 3 کا کنٹرول حاصل کرنا سندھ کے لیے بے مقصد ہے۔
سندھ کے وزیرِ آبپاشی جام خان شورو نے 11 مئی کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے اجلاس میں سندھ حکومت کے اصولی مؤقف سے آگاہ کیا۔ اس فیصلے میں یہ بات مضمر ہے کہ آر بی او ڈی 1 کا پانی منچھر جھیل میں جاتا رہے گا جو ضلع جامشورو میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کے حلقے میں واقع ہے۔
تاہم سندھ کے وزیرِ آبپاشی نے یہ نہیں بتایا کہ آر بی او ڈی 2 پر کام کب مکمل ہوگا اور اس کے حوالے سے آگے کیسے بڑھا جائے حالانکہ سندھ حکومت کی پراجیکٹ اسٹیئرنگ کمیٹی نے مئی 2021ء میں آر بی او ڈی 2 کو تکمیل کے لیے واپڈا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’حکومتِ سندھ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی حکومت کی ہر ممکن مدد کرے گی‘۔
کمیٹی کے فیصلے کے مطابق محکمہ آبپاشی نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کی منظوری کے لیے ایک سمری تیار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وزیرِ آبپاشی نے سمری پر اپنے ‘نوٹ’ میں تجویز پیش کی ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ کون سی ایجنسی اس پر عمل درآمد کرتی ہے، آر بی او ڈی 2 کو موجودہ الائنمنٹ کے ساتھ مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سمری پچھلے ایک سال سے زیرِ التوا ہے۔
اگرچہ متعلقہ صوبائی وزیر آر بی او ڈی کا کنٹرول نہ لینے میں حق بجانب ہیں لیکن اس کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس طرح منچھر جھیل کی بحالی کا کام التوا کا شار ہوجائے گا کیونکہ اس کا براہِ راست انحصار آر بی او ڈی 2 کی تکمیل پر ہے۔
آر بی او ڈی 2 وفاقی منصوبہ ہے اور اس میں سندھ حکومت کا حصہ 7 ارب روپے کا ہے۔ یہ منصوبہ گزشتہ 2 دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔ سندھ کی موجودہ حکمران جماعت فروری 2008ء سے اس صوبے پر حکومت کررہی ہے اور ان 14 سالوں میں بھی یہ حکومت اس منصوبے کے حوالے سے اپنے اعتراضات کا حل نہیں پیش کرسکی۔ یہ سوال بھی موجود ہے کہ حکومت نے آر بی او ڈی 2 کی الائمنٹ کو درست کروائے بغیر 2017ء میں اس کی 62 ارب روپے کی نظر ثانی شدہ لاگت پر اعتراض کیوں نہیں کیا۔
اس وجہ سے منچھر جھیل کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔ یہ بہت پرانی کہانی ہے کہ جھیل اپنا حیاتیاتی تنوع کھوچکی ہے اور یہاں بسنے والے ماہی گیر گھرانے آلودہ پانی کے باعث اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شاید ان لوگوں نے بھی اپنی تقدیر کو تسلیم کرلیا ہے۔
ئی ماہی گیر گھرانے تو کسی اور روزگار کے لیے اپنے تیرتے آشیانے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ جھیل ماہی گیری اور ذراعت کا ایک اہم ذریعہ تھی لیکن پھر اس میں مین نارا ویلی ڈرین (ایم این وی ڈی) یا آر بی او ڈی 1 سے آلودہ پانی آنے لگا۔
اس سے قبل واپڈا نے ہی آر بی او ڈی 1 اور 2 منصوبے مکمل کیے ہیں۔ آر بی او ڈی 2 کی تکمیل کے بعد یہ ایم این وی ڈی سے آنے والے آلودہ پانی کو بحیرہ عرب میں لے جاتا، جو اس وقت یہ پانی منچھر جھیل میں گرتا ہے۔ جام خان شورو کے مطابق ’آر بی او ڈی 2 کے ڈیزائن میں نقص ہے۔ یہ سیہون کے قریب دریائے سندھ سے ہوکر گزرتا ہے اس وجہ سے موجودہ الائنمنٹ کے ساتھ اسے تعمیر نہیں کیا جاسکتا‘۔
ایم این وی ڈی دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر تعمیر ہونے والا پہلا منصوبہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی واپڈا نے ہی کی تھی۔ اس کا مقصد سیم و تھور کا خاتمہ تھا۔ ایم این وی ڈی کو 1976ء میں منچھر جھیل سے جوڑا گیا تھا۔ اس وقت بھی طویل عرصے سے وہاں رہائش پذیر مقامی افراد نے اس پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔ مقامی افراد کو خوف تھا کہ اس طرح جھیل آلودہ ہوجائے گی۔
واپڈا کی جانب سے بنائے گئے آر بی او ڈی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ واپڈا نے 1992ء میں سکھر اور گڈو بیراج کے دائیں کنارے پر آلودہ پانی کی نکاسی کے لیے آر بی او ڈی کی تجویز دی تھی۔ آر بی او ڈی 1 اور 3 کا منصوبہ 1994ء سے 2004ء تک التوا کا شکار رہا اور پھر واپڈا نے 2020ء میں اس منصوبے کو مکمل کیا۔