تازہ ترینتھانہ کچہریریاست اور سیاست

کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا،اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے،چیف جسٹس

( رضا ہاشمی )سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جبکہ جسٹس منیب اختر 2 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ رولز کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں رش بڑھا تو چیف جسٹس نے غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ کچھ افراد اوپر گیلری میں چلے جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج ہمارے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں،سینئر وکلا بھی موجود ہیں، اس ماحول میں سماعت نہیں ہو پائے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ ماسک پہننے کا بھی خیال کریں۔

پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ سپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آئین کا آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سپیکر کو 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا گیا۔

آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن کے اندر اجلاس بلانا ہوتا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کےسبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے،ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔

اپوزیشن کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سپیکر نے آئین کے خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جن پر پہلے آرٹیکل 6 لگا ہے اس پر تو عمل کروالیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ 14 دن سے زیادہ تاخیر کرنے کا سپیکر کے پاس کوئی استحقاق نہیں،عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کےلیے صدارتی ریفرنس پرسماعت کےلیے لارجر بینچ بنائینگے، اس ریفرنس پر تمام سیاسی جماعتوں کے وکیل تیاری کریں،  صدارتی ریفرنس میں قانونی سوالات کیے گئے ہیں، سندھ ہائوس پرحملے کے معاملے پرایڈووکیٹ جنرل سندھ کی بات میں وزن ہے۔

اٹارنی جنرل نےسپریم کورٹ میں کہا ہےکہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جھتہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے زریعے نہیں روکا جائے گا، اٹارنی جنرل نےکہا کہ سندھ ہاوس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہاوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، آئی جی اسلام آباد نےعدالت میں کہا ہےکہ سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں، چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے تاثرات سامنے آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نےکہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے سے متعلق ہے، آرٹیکل 17 کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں،آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بینظیربھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،ایک انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعت کے بجائے کیسے گنا جاسکتا ہے؟ اپنی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں، چیف جسٹس کی وکیل سپریم کورٹ بار کو ہدایت۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ اراکین اسمبلی جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں،بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بن سکتی ہے،سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند نا پسند پارٹی موقف سے مختلف ہوسکتی یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، وکیل سپریم کورٹ بار آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے؟آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

جسٹس منیب نے کہاکہ اگر کوئی ممبر ووٹ ڈالنے جارہا ہوتو کوئی کیسے کہے گا کہ یہ ووٹ ڈالنا ان کا حق نہیں؟ سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سپریم کورٹ پہنچے۔

سپریم کورٹ کے باہر رہنماؤں کی آمد کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ خواجہ سعد رفیق، سردار اختر مینگل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button