ورلڈ اپ ڈیٹ

مقبوضہ کشمیر کے حق میں طیب اردغان کی اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقریراور وادی میں دہائیوں سے بند سینما کھل گئے

( مانیٹرنگ ڈیسک ) ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے پر بات کی ہے۔ ترک صدر اردغان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کشمیر میں ’منصفانہ اور دیرپا امن‘ کی امید رکھتے ہیں۔

ترک صدر نے کہا کہ 75 سال پہلے انڈیا اور پاکستان دو خودمختار ملک بنے لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن اور اتحاد قائم نہیں ہو سکا۔ ’یہ انتہائی افسوسناک ہے، ہم امید اور دُعا کرتے ہیں کہ کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم ہو۔‘

یاد رہے کہ صدر اردغان بین الاقوامی فورمز پر پہلے بھی کشمیر کے معاملے پر بات کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے اس نوعیت کا بیان آنے کے بعد انڈیا ہمیشہ اس کی مذمت کرتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ یہ اس کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔

اس بیان سے لگ بھگ ایک ہفتہ قبل ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ترک صدر اردوغان سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر پر بھارت اردغان کے پہلے بیانات کے جواب میں کہتا رہا ہے کہ یہ مکمل طور پر ’ناقابل قبول‘ ہیں اور یہ کہ کشمیر کا مسئلہ انڈیا کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔ بھارت ماضی میں یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ’ترکی کو دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔ اگست 2019 میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے صدر اردوغان ہر بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔

لیکن اس بار ان کی تقریر کا لہجہ نرم بتایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل وہ انڈیا پر کشمیر کے مسئلے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔2019 میں ترک صدر اردغان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں ناکہ بندی جیسی صورتحال ہے۔

2020 میں انھوں نے کہا کہ ’کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور آرٹیکل 370 کے تحت اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘2021 میں انھوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں مستقل امن قائم ہونا چاہیے۔2022 میں ترک صدر اردغان نے کشمیر کے مسئلے کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ معاملے کے طور پر بیان کرنا شروع کر دیا ہے۔

پانچ اگست 2019 کو انڈین وزیر اعظم مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا اور اس کے بعد سے صدر اردوغان عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔

صدر اردغان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی ویڈیو کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے، بروکنگز انسٹیٹیوٹ کی سینیئر فیلو تنوی مدن نے لکھا کہ ’دراصل، اردغان گزشتہ سال ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر پر نرم پڑ گئے تھے۔ اس کے علاوہ جون میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اردغان نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔‘

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انڈین وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ترک صدر کا کشمیر کے معاملے پر موقف نرم ہو گیا ہے۔

اور اس بار اس معاملے پر اُن کے موقف کو سرد ترین سمجھا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں 3 دہائیوں سے بند سینما گھر کھل گئے

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں کئی دہائیوں تک بند رہنے والے سنیما گھر ایک مرتبہ پھر آباد ہونا شروع ہوگئے۔

نیوز ایجنسی کے مطابق بھارتی حکومت نے منگل کو دارالحکومت سرینگر میں ایک بڑے سنیما گھر کا افتتاح کیا، جو آئندہ ہفتے عوام کیلئے کھول دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ کشمیر میں 1989 کے بعد سے سنیما گھر بند تھے، زیادہ تر سنیما گھروں پر بعد میں سیکیورٹی فورسز نے قبضہ کر لیا تھا جنہیں وہ حراستی مراکز کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 1990 کی دہائی اور بعد میں بھی مقبوضہ کشمیر کے سنیما ہالز کو کھولنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔

بھارتی انتظامیہ کے اعلیٰ افسر مانوج سنہا کا دعویٰ ہے کہ سنیما گھر کا دوبارہ کھلنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت علاقے میں امن کے قیام کیلئے پُرعزم ہے۔

سرینگر میں منگل کو سنیما گھر کی افتتاحی تقریب میں زیادہ تر بھارتی سرکاری اور سیکیورٹی افسران نے شرکت کی۔ مانوج سنہا نے علاقے میں مزید 10 سنیما کھولنے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ کم از کم 5 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں مستقل طور پر تعینات ہیں، جہاں آئے روز کشمیری مسلمانوں کے گھروں پر چھاپوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی شہادت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت 2019 کے بعد سے کشمیر میں اپنا کنٹرول مزید سخت کرنے کیلئے کئی اقدامات کرچکی ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا، خصوصی حیثیت کے خاتمے کے تقریباً 3 ماہ بعد مرکزی حکومت نے باقاعدہ طور پر متنازع خطے جموں و کشمیر کو دو وفاقی حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

صوفی کشتی جلوس کی بحالی

اس سے قبل 16 ستمبر کومقبوضہ کشمیر میں 33 برس بعد ’صوفی کشتی جلوس‘ بحال کر دیا گیا تھا ۔ یہ ایک روحانی پیشوا کے مزار پر حاضری کے لیے جہلم کے راستے کشتیوں میں سوار ہو کر گاندربل پہنچنے کی روایت پھر سے بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اس اقدام میں لوگوں دلچسپی پہلے کی نسبت کم نظر آئی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button