تازہ ترینتعلیم و صحتٹریفک اپ ڈیٹریاست اور سیاست

بلوچستان امداد کا منتظر ریلف فنڈ میں صرف 24 لاکھ جمع ہو سکے

( اسد شہسوار ٰ) سیلاب زدگان کیلئے بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے کھولے گئے فلڈ ریلیف فنڈ میں اب تک صرف 24 لاکھ روپے ہی جمع ہو پائے ہیں۔

بلوچستان حالیہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے، اب تک صوبے بھر میں سینکڑوں افراد سیلاب کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ کئی لوگ بے گھر ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ  سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے 21 اگست کوصوبے کے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے فنڈ قائم کیا تھا جس میں اب تک صرف 24 لاکھ روپے ہی جمع ہوپائے ہیں۔

بلوچستان میں سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 257 تک پہنچ گئی۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان سمیت ملک میں تباہی کی داستانیں رقم کرنے والے سیلاب نے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں 257 افراد کی جانیں لے لیں۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں میں 124 مرد، 59 خواتین اور 73 بچے شامل ہیں جبکہ بارشوں کے دوران حادثات کا شکار ہوکر 164 افراد زخمی ہوئے۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبے میں سب سے زیادہ 27 ہلاکتیں کوئٹہ، 21 لسبیلہ اور 19 ژوب مین ہوئیں۔

پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2 لاکھ 8 سو 11 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں، سولر پلیٹس، ٹیوب ویلز اور بورنگ کو نقصانات پہنچا ہے،

بارشوں سے 1 لاکھ 45 ہزار 936 مال مویشی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ مختلف مقامات پر 20سے زائد پل ٹوٹ چکے ہیں۔ اسی طرح 1000 کلو میٹر پر مشتمل مختلف شاہرائیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں جبکہ 61 ہزار 718 مکانات منہدم اور جزوی نقصان کا شکار ہوئے۔

خضدار کی صورتحال امداد کی اشد ضرورت

خضدار میں مون سون بارش اور آنے والے سیلاب کے بعد وبائی امراض شدت کے ساتھ خضدار کے شہری اور دیہی علاقوں میں بڑھنے لگے ہیں ۔ خضدار میں گیسٹرو وباءکی شدت میں اضافہ و وبائی امراض سے چھ سو سے زائد مزید متاثرین اسپتال لائے گئے ہیں، حالیہ چند روز میں خضدار و گردنواح میں کیسٹرو وباء سے رپورٹ ہونے والی اموات کی تعداد اب 20 ہوگئی ہے، جبکہ 600 افراد زیر علاج ہیں۔

پیرا میڈیکس کا کہنا ہے جہاں جہاں سیلاب کے باعث پانی کھڑا ہوا ہے وہاں مختلف قسم کی بیماریاں پیداء ہورہے ہیں سیلاب سے متاثرہ افراد جلد، گیسٹرو، ملیریا، پیٹ درد، ہیضہ و کھلے آسمان تلے رہنے کے باعث بخار میں مبتلاء ہورہے ۔ کوہلو میں ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لئے قائم کردہ میڈیکل کیمپ میں پیٹ درد و ملیریا سے متاثر مریض لائے گئے ہیں۔ جن میں سے درجنوں متاثرہ مریضوں کی حالات تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے کوہلو و گردنواح میں ملیریا سے شدید متاثرہ بچوں کو کوئٹہ ریفر کردیا گیا ہے۔

حالیہ سیلاب سے متاثر بے گھر ہونے والے لسبیلہ کے مکین ڈائریا اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ علاقہ مکینوں نے کہا ہے کہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ڈاکٹروں کی کمی کے باعث متاثرین کی ہسپتالوں تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ ادھر سیلاب سے متاثر نصیر آباد کے علاقوں سمیت حب چوکی کے علاقوں میں جلدی اور آنکھوں کی وبا ء کے باعث درجنوں خواتین و بچے متاثر ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق سیلابی پانی جمع ہونے اور گندگی پھیلنے کی باعث اسہال، ڈینگی، ملیریا، جلد کے انفیکشن، معدے کے امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں نے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی صحت کو سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں ، جبکہ مچھروں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان کے فلاحی تنظیموں نے محکمہ صحت، حکومت اور عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں فوری متاثرین کی بحالی کو یقینی بنایا جائے وگرنہ صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کرسکتی ہے۔ بلوچستان میں سیلاب بارشوں سے متاثرہ علاقے شدید قسم کی بیماریوں کا آماج گاہ بن رہے ہیں۔

تاہم ان علاقوں میں ادویات کی عدم موجودگی کی باعث امراض پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے ، جبکہ روڈ بہہ جانے اور زمینی رابطے منقطع ہونے کی باعث بڑے شہروں کی جانب علاج کے لئے سفر کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

بلوچستان زیر آب ہیں پانی سڑکوں، دکانوں اور دفاتر میں داخل

بپھرا سیلابی ریلا چمن کے اطراف میں تباہی پھیلاتا ہوا پاک افغان سرحدی دیہات، باب دوستی کے ساتھ کسٹم اور ایف آئی اے دفاتر میں داخل ہوگیا۔ پیدل آمد و رفت کے راستے میں سات فٹ تک سیلابی ریلے میں کئی مسافر پھنس گئے۔

لیویز کے ساتھ پاک فوج اور ایف سی کا بھی پانی میں پھنس جانے والے افراد کو بچانے کے لئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

جعفرآباد، نصیرآباد اور صحبت پور میں مزید بارشوں کے بعد نئے ریلے مشکلات بڑھانے آگئے۔ سنجاوی میں بھی صورتِ حال مزید خراب ہوگئی۔ متاثرین کے لئے خیمے، خوراک اور دوائیں نایاب ہوگئیں۔

بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں انفراسٹرکچر اورکرپشن زدہ منصوبے سیلاب کے ریلوں میں بہہ گئے ہیں ۔ دوسری طرف ایک درجن سے زائد ڈیمز ناقص تعمیر کی وجہ سے پانی کا دباؤ برداشت نہ کر سکنے سے ٹوٹ گئے ہیں۔

بلوچ عوام عالمی امدادی اداروں اورممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لئے خود آگے آئیں کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button