ایف 16 طیاروں کے حوالے سے پاکستان خود مختار ہو گیا

( اسیس مہتاب ) امریکی محکمہ خا رجہ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی مرمت کیلئے سامان اورآلات فروخت کرنےکی منظوری دے دی۔
پینٹا گون کے بیان کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے 45 کروڑ ڈالرز معاہدے کی منظوری دی ہے، اس کا ٹھیکہ لاکہیڈ مارٹن کارپوریشن کو دیا جائے گا۔
امریکی ادارے یو ایس ڈیفنس سکیورٹی کو آپریشن ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو پاکستان ائیرفورس کی ایف 16 فلیٹ کیلئے متعلقہ اوزار اور سامان فروخت کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایف 16 طیاروں کی سسٹینمنٹ اور سپورٹ پروگرام کیلئے امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا۔
معاہدہ کی کل لاگت 45 کروڑ امریکی ڈالر
اس معاہدے میں پرنسیپل کانٹریکٹر امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن ہو گی۔
.@StateDept authorizes a Foreign Military Sales #FMS case for #Pakistan for follow on effort and consolidation of prior F-16 sustainment and support cases to support the Pakistan Air Force F-16 fleet valued at up to $450 million #FMSUpdate – https://t.co/qkPRC9mOWK
— Political-Military Affairs, US Dept of State (@StateDeptPM) September 7, 2022
بدھ کو وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال اور ان سے متعلق آلات اور سروسز کی مد میں ممکنہ طور 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کی منظوری دی گئی ہے۔
اعلامیہ کے اہم نکات
اعلامیے کے مطابق امریکہ کی ڈیفنس سکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے اس حوالے سے مطلوبہ سرٹیفیکیشن فراہم کر دی ہے جس کے بعد آج کانگریس کو اس ممکنہ فروخت کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ماضی کی طرح ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال اور معاونت کو برقرار رکھنے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ پاکستان ایئر فورس کے ایف 16 بیڑے کی معاونت کی جا سکے اور اس حوالے سے مزید عوامل بھی شامل کیے جا سکیں۔
خیال رہے کہ جولائی 2019 میں امریکی محکمہ دفاع نے پاکستان کو ایف 16 جنگی جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا، اور یہ سلسلہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی جاری تھا۔
ایف سولہ طیارے کی فضائی جنگی صلاحیت
پاکستان کے پاس مجموعی طور پر 85 ایف سولہ طیارے ہیں جن میں سے 66 پرانے بلاک 15 طیارے ہیں اور 19 جدید ترین بلاک 52 ہیں۔ یہ طیارے امریکی ٹیکنیکل سکیورٹی ٹیم کی نگرانی میں ہیں۔
اس تازہ ترین ممکنہ معاہدے کے تحت امریکی حکومت اور لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے جو انجینیئرنگ، تکنیکی اور لاجسٹیکل سروسز فراہم کی جائیں گی ۔
اعلامیے کے مطابق ’اس ممکنہ فروخت میں طیارے میں کسی نئی صلاحیت، اسلحے وغیرہ کا اضافہ شامل نہیں ہے۔
’یہ ہماری خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہداف کے حصول میں بھی مدد دے گا تاکہ پاکستان کے پاس امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور مستقبل میں ممکنہ آپریشنز میں آپریٹ کرنے کی صلاحیت برقرار رہے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ ممکنہ فروخت پاکستان کے ایف 16 فضائی بیڑے کی دیکھ بھال جاری رکھنے میں مدد کرے گی جس سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں فضا سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں معاونت ملے گی۔
’پاکستان کو ان سروسز اور آلات کو اپنی افواج میں شامل کرنے میں کوئی مشکل نہیں آئے گی اور اس ممکنہ فروخت سے خطے میں بنیادی عکسری توازن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘
پاکستان اور امریکا کی ایف سولہ طیاروں کے گرد گھومتی خارجہ پالیسی
پاکستان اپنے دفاع کے لیے جنگی طیاروں سمیت مختلف قسم کا اسلحہ اور جنگی سازو سامان امریکہ سے خریدتا رہا ہے۔
پاکستان یہ جنگی سازو سامان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرتا رہا ہے بلکہ مشرقی سرحد کی حفاظت کے لیے بھی اسی پر انحصار کرتا ہے۔
اس پروگرام کا آغاز سنہ 1981 میں ہوا تھا جب افغانستان میں سویت یونین نے مداخلت کی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی حامی بھر لی تھی تاکہ انھیں سویت یونین اور افغان طیاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
سویت یونین اور افغان طیارے ترتیب وار سرحد پار کر کے مجاہدین کے تربیتی کیمپوں کو نشانہ بناتے تھے۔ سنہ 1986 سے 1990 کے دوران پاکستانی ایف سولہ طیاروں نے کم از کم 10 افغان اور روسی طیارے، ہیلی کاپٹر اور ٹرانسپورٹ طیارے مار گرائے تھے۔
1990 میں امریکہ نے 28 ایف سولہ طیارے پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا جس کے لیے پاکستان 658 ملین ڈالر کی رقم ادا کر چکا تھا۔ اگرچہ امریکہ نے آخر کار یہ رقم واپس کر دی تھی، اسلام آباد نے امریکہ کو ایک قابل اعتبار اتحادی کے طور پر شک سے دیکھنا شروع کر دیا اور تحفظات پیدا ہوئے تھے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کی ایف سولہ کے حوالے سے پالیسی
نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو 18 جدید ترین بلاک 52 ایف سولہ طیارے دینے پر اتفاق کیا جس کی لاگت تقریباً 1.4 ارب ڈالر تھی۔
اس کے ساتھ ٹارگٹنگ پوڈز اور الیکڑانک وار فئیر پوڈز بھی شامل تھے۔ پاکستان کے 52 پرانے ماڈل کے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن کٹس بھی دی گئی تھیں اور یہ ساز و سامان ملنے کے بعد ایف سولہ طیارے بلاک 52 قسم کے طیاروں کے ہم پلہ ہو گئے تھے۔
سنہ 2016 میں پاکستان کی جانب سے امریکہ سے مزید ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے مالی امداد کی درخواست امریکی کانگریس کی جانب سے رد کر دی گئی تھی۔
اس وقت کے امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ‘کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو اطلاع دے دی ہے کہ یہ طیارے خریدنے کے لیے انھیں اپنے قومی فنڈ کا استعمال کرنا ہو گا۔’
خیال رہے کہ کارگل جنگ کے دوران پاکستانی ایئر فورس کو پوری طرح فعال نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم سنہ 2019 میں انڈین ایئر فورس کی بالاکوٹ میں سرجیکل سٹرائک کے دوران پاکستان ایئر فورس نے انڈین ‘مِگ’ طیارہ مار گرایا تھا لیکن آج کی تاریخ تک یہ شک ہے کہ اس آپریشن میں ایف سولہ استعمال ہوئے تھے۔
پاکستان انکار جبکہ انڈیا واویلا کرتا ہے کہ پاکستان نے امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے اس کارروائی میں استعمال کیے تھے۔