پاکستان نے مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کیلئے افغانستان کو خط لکھ دیا

( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان نے کالعدم جیش محمد ﷺ کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کیلئے افغانستان کو خط لکھ دیا۔
پاکستان کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق مسعوداظہر ممکنہ طور پر ننگرہار اور کنڑ کے علاقوں میں ہیں لہٰذا انہیں تلاش کرکے اطلاع دی جائے اور گرفتار کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسعوداظہر کی گرفتاری کیلئے خط وزارت خارجہ کی طرف سے لکھا گیا۔
دوسری جانب وزارت خارجہ کے ترجمان نے معاملے کو حساس قرار دے کر بات کرنے سے گریز کیا۔
مذہبی گھرانے میں پیدائش
مسعود اظہر نے سنہ 1968 میں پاکستان کے شہر بہاولپور میں ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد طب اور حکمت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے نانا محمد حسین چغتائی تحریک ختم نبوت میں سرگرم تھے اور سنہ 1992 تک مجلس احرار عالمی کے امیر رہے۔
مولانا مسعود نے بہاولپور میں بنیادی تعلیم حاصل کی۔ ساتویں جماعت کے لیے ان کے چچا انھیں رحیم یار خان لے گئے۔ سنہ 1980 میں انھیں کراچی میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جامعہ بنوریہ کے استاد سعید الرحمان، مسعود کے والد کے دوست تھے۔
استاد سے جہادی
مدرسہ جامعہ بنوریہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مسعود اظہر کو وہاں استاد مقرر کر دیا گیا جہاں وہ صرف و نحو کی بنیادی کتب کے علاوہ غیر ملکی طلبا کو پڑھاتے تھے۔ عربی میں دسترس ہونے کی وجہ سے انھیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔
رسائل جہد میں مولانا طاہر حمید لکھتے ہیں کہ سنہ 1988 میں مولانا مفتی احمد الرحمان افغانستان کے دورے پر گئے تھے۔ جہاں ان کی جلال الدین حقانی سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے طلبہ کو جہاد کی تربیت دلوانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر جلال حقانی نے مولانا فضل الرحمان خلیل کو کراچی بھیجا کہ وہ طلبہ کو جہاد کی دعوت دیں۔
مولانا طاہر حمید جامعہ بنوریہ میں مولانا مسعود کے ساتھ زیر تعلیم رہے وہ مزید تحریر کرتے ہیں کہ سنہ 1988 کی سالانہ تعطیلات میں مدرسہ بنوری ٹاؤن کے کافی طلبہ تربیت کے لیے افغانستان گئے اور جہاد میں شرکت کی۔ سنہ 1989 میں مسعود اظہر بھی کچھ دیگر رفقا کے ساتھ مجاہدین کے حالات دیکھنے تین روز کے لیے افغانستان گئے لیکن پھر وہاں انھوں نے 40 روزہ تربیت مکمل کی اور مستقل جہاد میں رہنے کا عزم کیا۔
بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو تفتیش کے دوران دیے گئے ایک بیان میں مولانا مسعود اظہر نے بتایا تھا کہ حرکت المجاہدین میں شمولیت کے بعد انھیں عسکری تربیت کے لیے افغانستان بھیج دیا گیا، تاہم کمزور جسامت کی وجہ سے وہ 40 روزہ لازمی کورس مکمل نہ کر سکے۔
صحافت کی طرف رخ
افغانستان سے واپسی کے بعد مسعود اظہر کی سوچ خیال اور زندگی میں تبدیلی آئی اور وہ کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، کھپرو، نواب شاہ سمیت دیگر علاقوں میں جہاد کی دعوت دینے نکل جاتے تھے۔
اپنے نقطۂ نظر کو بیان کرنے اور جہاد کی تشہیر کے لیے انھوں نے صحافت کا سہارا لیا۔ سنہ 1990 میں جنوری میں ماہنامہ ’صدائے مجاہد‘ کا پہلا شمارہ جاری ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ حرکت المجاہدین کے زیر اثر تھا۔
مسعود اظہر نے 30 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جو جہاد اسلامی، تاریخ اور جہادی تربیت و انتظام کاری کے بارے میں ہیں۔ انھوں نے افغانستان جہاد کی اہمیت پر اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ افغانستان میں اچانک جہاد شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قدیم اسلامی تحریکیں منظم ہو گئیں اور مزید نئی طاقتور تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔
انڈیا میں گرفتاری اور رہائی
مسعود اظہر عالمی جہاد کے قائل ہیں۔ انھوں نے انڈیا، بنگلہ دیش، سعودی عرب اور زیمبیا کے علاوہ برطانیہ کے بھی دورے کیے۔ ایسے ہی دورے کے دوران انھیں سنہ 1994 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گرفتار کر لیا گیا۔
جب کشمیر میں سنہ 1995 میں چھ غیر ملکیوں کو اغوا کر لیا گیا۔ اغوا کار گروپ نے اپنا نام الفاران بتایا اور مسعود کی رہائی کا مطالبہ کیا جسے انڈین حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد عام رائے یہی ہے کہ پانچ سیاحوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ ایک فرار ہونے میں کامیاب رہا۔
اس کے بعد 24 دسمبر 1999 کو کھٹمنڈو سے دلی جانے والے انڈین ایئر لائن کے طیارے کو اغوا کر لیا گیا، اس طیارے کو قندھار میں اتارا گیا جہاں طالبان کی حکومت تھی۔
ہائی جیکروں نے طیارے میں سوار 155 مسافروں کی رہائی کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا اور طویل مذاکرات کے بعد مولانا مسعود اظہر کے ساتھ عمر سعید شیخ اور کشمیری رہنما مشتاق زرگر کو رہائی مل گئی۔
رہائی کے بعد تینوں رہنماؤں نے اطلاعات کے مطابق اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات بھی کی تھی۔ عمر شیخ کو بعد میں کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور وہ قید میں ہیں۔
جیش محمد کا قیام
انڈیا میں گرفتاری سے قبل مولانا مسعود حرکت المجاہدین میں شامل تھے۔ انھوں نے رہائی کے بعد کراچی میں جیش محمد کے قیام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں انھیں جامعہ بنوریہ ٹاؤن سمیت مختلف مدارس کے علما کی حمایت حاصل رہی۔
صحافی سبوخ سید کے مطابق کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق بھی جیش کے قیام میں مولانا مسعود کے ساتھ ساتھ تھے جس کی وجہ سے حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل اور ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے۔
جیش محمد نے حرکت المجاہدین کے کئی کیمپوں اور دفاتر پر قبضہ کر لیا اس قبضے میں سپاہ صحابہ بھی شریک کار تھی اس کے علاوہ مولانا مسعود کو لال مسجد اسلام آباد کی بھی مکمل حمایت حاصل رہی۔