تعلیم و صحت

پاکستان کا تعلیمی نظام ابتری کی جانب گامزن، یونیسکو رپورٹ

(مانیٹرنگ ڈیسک)اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔

یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث نجی تعلیمی اداروں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، نجی تعلیمی اداروں کے فروغ سے سرکاری تعلیمی اداروں کو حقارت سے دیکھا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 27 فیصد طلبا نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم جب کہ پاکستان میں یہ تعداد دگنی ہے، پاکستان میں غیر رجسٹرڈ نجی اسکولوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ طلبا نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں نجی تعلیمی اداروں کے 45 اور سرکاری اسکولوں کے 25 فیصد طلبا ٹیوشن سینٹر بھی جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں 92 طلبا کے لیے ایک استاد ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں میٹرک کے 59 فیصد طلبا سکولوں کے علاوہ مختلف اکیڈمیز بھی جاتے ہیں، پاکستان میں اکیڈمیزاور ٹیوشن سینٹر کی فیس اضافی بوجھ ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 37-Bکے مطابق ناخواندگی کا خاتمہ اور معیاری تعلیم کی بلا معا وضہ فراہمی ریاستی ذمہ داری ہے۔ 18اپریل 2010 کو جب اٹھارویں ترمیم پاس کی گئی اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کیا گیا تو ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل25-Aمیں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ 5سے16سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کر نا حکومت کا فریضہ ہے۔مگر کل بجٹ کا معمولی سا حصہ جو تعلیمی شعبے کا مقدر بنتا ہے،

ہمارے ارباب اقتدار کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔ریاست کا آئینی فرض ہونے کے باوجود ایسی صورتحال میں ریاست کے لیے پورے ملک کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنامشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔

سرکاری سکولوں میں تعلیمی سال کے آغاز سے اساتذہ کو ایک کلینڈر کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ کس تاریخ تک کتنے موضوعات مکمل کرنے ہیں۔ سلیبس ترتیب دینے کی ذمے داری اساتذہ پر عائد نہیں ہوتی۔ کچھ سات آٹھ سال کے عرصے سے اب سرکاری اداروں میں اساتذہ کی بھرتی کے معاملات میں ایک مثبت تبدیلی سامنے آئی ہے۔

اب ایم ایس سی، ایم فل تک پڑھے ہوئے افراد بھی پرائمری سکولوں میں ٹیچنگ کو برا نہیں سمجھتے، اپنی تعلیم ساتھ جاری رکھتے ہیں اور گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہر دو سال یا سال بعد ٹریننگ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ صرف تب ہی ممکن ہے اگر استاد اس میں خود دلچسپی لے ورنہ صرف حاضری لگانے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔

 اسی طرح مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ طلبا جن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہوتے بلکہ کچھ بچے تو خود مزدوری بھی کرتے ہیں۔

ایسے حالات میں پڑھنے کا جذبہ لائق تحسین ہے۔ اب اگر اساتذہ کی بات کی جائے تو پڑھائی کے ساتھ انہیں گھروں سے بچوں کو منتیں کر کے خود پڑھنے کے لیے لانا پڑتا ہے تاکہ حاضری کا تناسب قائم رہے اور فنڈز کی آس بنی رہے۔

اس کے علاوہ بعض اوقات پولیو ورکرز کے ساتھ ڈیوٹی نبھانے کے علاؤہ غسل خانوں کی صفائی سے لے کر درختوں کی کٹائی کے معاملات بھی اساتذہ کو خود سنبھالنے پڑتے ہیں۔

اب اس صورت حال میں طلبا جیسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بے شک جہاد سے افضل ہے۔ طلبا کی حاضری کم ہونا یا تعلیم سے دلچسپی کم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہی دہائیوں پرانا نصاب اور طریقہ تدریس اب تک جاری ہے، جوکہ طلبا کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔

نیز ٹیکنالوجی اور تجرباتی اور نظریاتی تعلیم شاید اس نظام کو بہتر بنانے میں مدد دے۔ ان تمام تکالیف اور خامیوں کے باوجود ہر سال بورڈ کے امتحانات میں کچھ ناموں کا روشن ہونا ایک خوشگوار تاثر دیتا ہے کہ محنت اپنا رنگ لاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button