فن و فنکار

شاعر و ادیب اختر شمار انتقال کر گئے

( شیتل ملک) معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر اختر شمار علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر اختر شمار کو ضلع راولپنڈی میں واقع ان کے آبائی گاؤں سہال میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔

ڈاکٹر اختر شمار مختلف اخبارات اور رسائل کے ساتھ منسلک رہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر اختر شمار کا آبائی تعلق گاؤں سہال نزد چکری ضلع راولپنڈی سے تھا۔

ان کے والد بہت عرصہ پہلے ملتان میں آباد ہو گئے تھے، اختر شمار کی شاعری کا آغاز بھی ملتان سے ہوا تھا۔

ڈاکٹر اختر شمار نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور سے کیا، بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے ایف سی کالج تک پہنچے۔

انہوں نے بی اے تک تعلیم ملتان میں حاصل کی، ایم اے اردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کیا۔

مختلف اخبارات و رسائل میں کام کرنے کے علاوہ ’بجنگ آمد‘ کے نام سے اپنا جریدہ جاری کیا۔

 ڈاکٹر صاحب نے ’حیدر دہلوی: احوال و آثار‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

روفیسر ڈاکٹر اختر شمار (الپیال راجپوت) کے شعری سفر کی باقاعدہ ابتداء 1984ء میں قارئینِ ادب کو ہائیکو کی پوشاک پہ کاڑھے ’’روشنی کے پھول‘‘ پیش کرنے سے ہوئی تھی۔ 1992ء میں انھوں نے ’’کسی کی آنکھ ہوئے ہم‘‘ کی روح افزا نوید سنائی۔ 1993ء میں ’’یہ آغازِ محبت ہے‘‘ کا مزید اقرار سامنے آیا۔ 1994ء میں ’’جیون تیرے نام‘‘ تک نوبت جا پہنچی۔ 1996ء میں ’’ہمیں تیری تمنا ہے‘‘کی صورت میں یہ محبت مزید یا شدید نوعیت اختیار کر گئی۔ 1996ء ہی میں ڈاکٹر اختر شمار نے اپنی مادری زبان میں ’’اکھیاں دے وچ دل‘‘ کا مژدہ سنایا۔ اکیسویں صدی کے پہلے ہی سال انھوں نے ایک بار پھر ’’آپ سا نہیں کوئی‘‘ کی تائید کی۔ 2002ء میں بھی ان کے انتخاب کا لبِ لباب: ’’تمھی میری محبت ہو‘‘ والا تھا۔

2005 اور 2007ء میںان کے شعری ’’دھیان‘‘ کی یک سوئی برابر محسوس ہوتی رہی۔ 2010ء میں ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب نے پنجابی کا ’’میلہ چار دیہاڑے‘‘ انجوائے کیا۔ ان کے نثری پلڑے میں ’’مسلم تہذیب و فکر کا مطالعہ‘‘( 2002ء)’ ’پنجابی ادب رنگ‘‘ (2002ء)’’انتخابِ جمال‘‘ (2003ء) ’’بھرتری ہری:ایک عظیم شاعر‘‘ (2004ء)، ’’مَیں بھی پاکستان ہوں‘‘

(2010ء)،’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ (2005ء)، ’’ویلے دی اکھ‘‘ (2009ء) ،’’دنیا مسافرخانہ اے‘‘(2010ء) ،’خطوں میں دفن محبت‘‘ (2010ء)، ‘’آدابِ خود آگاہی‘‘ (2011ء)، ’’موسیٰ سے مرسی تک‘‘ (2013ء)، ’’لاہور کی ادبی ڈائری‘‘ (2014ء )، ’’جی بسم اللہ‘‘ (2016ء) تیزی سے شامل ہوتے چلے گئے۔پھر اسی برس ان کا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ بھی’ ’حیدر دہلوی: احوال و آثار‘‘ کے نام سے کتابی شکل اختیار کر گیا۔

اور اب 2017ء میں وہ اپنی اس ’’عاجزانہ‘‘ پیش کش کے ساتھ اُردو کی شعری دنیا میں حاضر رہے۔ ان کی شعرنگری میں حمد، نعت، سلام، مناجات، غزل، نظم، گیت، ترانے جیسی خوش رُو اصناف کا بسیرا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button