عمران خان کا مارچ، اہم سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں کا امکان

(اسیس مہتاب)رات گئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہم اجلاس میں پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کی بندش سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک، شیخ راشد شفیق، عامر کیانی کے وارنٹ حاصل کر لیے گئے ہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ علی امین گنڈاپور اور ملک عامر ڈوگر کو بھی گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ تک رینجرز، ایف سی اور پولیس مارچ کرے گی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ تک روڈ بند کرنے والوں کیخلاف فوری کارروائی ہوگی، ایئرپورٹ روڈ کو کسی بھی طرح بند نہیں کیا جا سکتا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ مجھے 100 فیصد یقین ہے عمران خان نے اپنے اوپر خود حملہ کرایا،فیس سیونگ کیلئے ڈرامہ کیا،و زیراعظم فل کورٹ کیلئے جلد خط لکھ دینگے،جب 126 دن کا دھرنا تھا تب بھی عمران خان کو فیس سیونگ چاہیے تھی اور اے پی ایس کا سانحہ ہوگیا، لانگ مارچ کی بلی تھیلے سے باہر نکل رہی تھی اور عمران خان کے سیاسی عزائم پورے نہیں ہورہے تھے 7 دن لاہور کے ارد گرد ہی گھومتے رہے تو اس نے یہ سارا ڈرامہ رچایا،وزیراعظم جلد چیف جسٹس کوفل کورٹ کمیشن کیلئے خط لکھ دیں گے۔،
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا عمران خان کے آگے تو بڑی پروٹیکشن تھی، کیسے لوگوں کے بیچ سے ان کے پاؤں میں جاکر گولی لگی؟، کنٹینرسے گارڈز نے نیچے کھڑے لوگوں پر فائرنگ کی ،عمران خان کی گرفتاری سے متعلق سوال پررانا تنویر نے کہا بالکل گرفتار کیا جاسکتا ہے، ایک شخص پاکستان کو کمزور کرنے کے در پے ہے، جو بھی افواج پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرے قانون کے مطابق سخت ایکشن لینا چاہیے، عمران خان کا ایک ہی کام ہے الزامات لگانا، یہ جھوٹا اور سازشی شخص ہے جو ہمارے معاشرے کیلئے ناسور بنا ہوا ہے،
انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی ویڈیو کے معاملے پرچیئرمین سینیٹ نے کمیٹی بنائی ہےحقائق جلد سامنے آجائیں گے، جعلی ویڈیو بنا کر چلادیتے ہیں لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو حملے کے بعد جمعرات کو اپنی والدہ کے نام سے موسوم شوکت خانم کینسر ہسپتال میں منتقل ہوگئے تھے ڈسچارج ہونے کے بعد لاہور میں اپنے گھر منتقل ہوگئے ہیں، ہسپتال میں چار روزہ قیام کے دوران انہوں نے تمام سیاسی سرگرمیاں ہسپتال میں ہی انجام دیں ، کور کمیٹی کے ارکان کا ہنگامی اجلاس، مختلف نوعیت کی ملاقاتیں، انٹرویوز اور پریس کانفرنسز سمیت دیگر تنظیمی سرگرمیاں یہیں پر انجام دیں جس باعث ہسپتال میں جہاں انکا قیام تھا وہحصہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا،
اتوار کو ہسپتال سے روانگی سے قبل بھی انہوں نے میڈیا کیمروں کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے احتجاج کے حوالے سے جو پروگرام پیش کیا اس میں لانگ مارچ کی آخری منزل کے طور پر اسلام آباد کا سرے سے کوئی ذکر نہیں تھا اس سے قبل خود عمران خان اور تحریک انصاف کے مرکزی ر ہنماء لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے اسلام آباد کا ہی ذکر کرتے آئے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے اسلام آباد کی انتظامیہ کو درخواست بھی دے رکھی ہے جس میں انہوں نے سری نگر ہائی وے پر واقع سیکٹر جی نائن اور ایچ نائن کی درمیانی جگہ تجویز کی ہے تاہم اسلام آباد کی انتظامیہ نے لانگ مارچ سے متعلق جو تفصیلات طلب کی تھیں وہ ابھی تک تحریک انصاف کے منتظمین نے فراہم نہیں کیں،عمران خان اپنے احتجاجی اجتماع کو راولپنڈی کیوں لے جانا چاہتے ہیں اسکی بظاہر ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ جی ٹی روڈ کے ذریعے آرہے ہیں اور راولپنڈی میں بھی پنجاب حکومت ہی انتظامی نظم ونسق کی ذمہ دار ہے اسلئے انہیں اسلام آباد کی نسبت جہاں وفاقی حکومت کا کنٹرول ہے کچھ آسانیاں اور قدرے اطمینان کا ماحول ملے گا لیکن اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا وہ اپنا احتجاج اور دھرنا راولپنڈی تک ہی رکھیں گے یہاں اس پہلو کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ عمران خان ان دنوں حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر رہے ہیں اور پاک فوج ہیڈکوارٹر اور دیگر عسکری شعبوں کے دفاتر کی وجہ سے راولپنڈی کا ایک علامتی حوالہ بھی ہے جو اکثر سیاستدان احتیاط سے لیتے ہیں جو قارئین جی ٹی روڈ سے سفر کرتے ہیں انکو بخوبی علم ہوگا کہ اگر لاہور سے اسلام آباد جانا مقصود ہو تو روات سے آگے دائیں ہاتھ پر ایک راستہ اسلام آباد کی طرف ٹرن ہو جاتا ہے جو ایکسپریس وے سے ہوتا ہوا اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں تقسیم ہوتا ہے اس ٹرن کو ٹی چوک کہتے ہیں اور اگر اسلام آباد سے آنیوالوں کی منزل پنڈی میں ہو تو وہ سیدھی سڑک کے ذریعے راولپنڈی کے کچہری چوک پہنچنے پر فاصلہ ٹی چوک سے تقریباً 20 کلومیٹر بنتا ہے جس کے بعد کینٹ ایریا شروع ہو جاتا ہے، منگل کو وزیر آباد سے چلنے والا لانگ مارچ کا پہلا بڑا پڑاؤ ٹی چوک میں ہوگا اور اس مقصد کیلئے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جگہ کو کشادہ کرنے، رکاوٹیں دور کرکے صفائی اور دیگر انتظامات مکمل کئے ہیں یہاں عمران خان لانگ مارچ کو جوائن کرکے قیادت کریں گے اور انکا خطاب بھی ہوگا یہاں سے عمران خان اسلام آباد کی طرف جائیں گے یا پھر سیدھے کچہری چوک کی طرف اور پھر وہاں سے براستہ مری روڈ سے ہوتے ہوئے فیض آباد اور پھر اسلام آباد، قیاس کیا جارہا ہے کہ اس بات کا فیصلہ عمران خان اپنے مطالبات، لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد اور دیگر معاملات کو دیکھتے ہوئے کرینگے، تحریک انصاف کے ایک ذریعے کے مطابق اگر براستہ مری روڈ اسلام آباد جانے کا فیصلہ ہوا تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ مری روڈ کے وسط میں واقع وسیع و عریض نواز شریف پارک میں بھی لانگ مارچ کے شرکاء کا قیام ہوسکتا ہے۔